استنبول۔ 3؍اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام)۔ ترکی میں آئندہ اتوار کو اولین صدارتی انتخابات مقرر ہیں۔ وزیراعظم رجب طیب اردغان طاقتور صدر کے عہدہ کے لئے مقابلہ میں ہیں۔ ناقدین کو اندیشہ ہے کہ ان کے برسراقتدار آنے کی صورت میں انفرادی آمریت کا آغاز ہوجائے گا۔ اردغان اور ان کی اسلامی بنیادیں رکھنے والی اِنصاف و ترقی پارٹی 7 کروڑ 60 لاکھ آبادی والے ملک پر گزشتہ دس سال سے حکومت کررہے ہیں، لیکن صدارتی انتخابات میں جو ڈھائی سالہ مدت کا عہدہ ہے، پہلی بار پارٹی کا امیدوار انتخابی میدان میں ہے۔ امکان ہے کہ وہ دو میعادوں یعنی پانچ سال تک صدر ترکی برقرار رہیں گے۔
کامیابی کی صورت میں اردغان ترکی کے طویل ترین مدت تک برسراقتدار رہنے والے حکمراں ہوں گے۔ قبل ازیں صرف جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشاہ اتاترک نے طویل مدت تک حکمرانی کی تھی اور خلافت ِ عثمانیہ کے زوال کے بعد سیکولرزم کے اُصولوں پر مبنی حکومت قائم کی تھی۔ گزشتہ دس سال سے صدر ترکی کا عہدہ ایک رسمی کردار ادا کرتا رہا ہے، لیکن اردغان نے عہد کیا ہے کہ وہ دستور میں تبدیلی لائیں گے تاکہ صدر مملکت کو مزید اختیارات حاصل ہوسکیں۔ وہ صدر کے عہدہ کو چست اور درست بنانا چاہتے ہیں۔ 10 اگسٹ کو رائے دہی پہلی بار ترک خاص طور پر اپنے صدر کا انتخاب کریں گے جس کے نتیجہ میں 60 سالہ اردغان امکان ہے کہ نئے عظیم تر جواز کے ساتھ صدر منتخب ہوجائیں گے اور اقتدار میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ ان کے خلاف دیگر امیدواروں کے پیش نظر اردغان کی کامیابی یقینی ہے۔ سب سے بڑی بے یقینی کی صورتِ حال یہ ہے کہ کیا 10 اگسٹ کو وہ کامیاب ہوجائیں گے یا رائے دہی کا دوسرا مرحلہ دو ہفتے بعد منعقد کیا جائے گا؟ ان کے خلاف صرف دو امیدوار ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اردغان کے خلاف 70 سالہ اکمل الدین احسان اوگلو کو اور اعتدال پسند سابق صدر اسلامی تعاون تحریک کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ تیسرے امیدوار صلاح الدین ڈیمیرتاس ہیں جن کی عمر 41 سال ہے اور انھیں ترک حامی طاقتوں نے اپنا امیدوار بنایا ہے۔