ارتداد ناقابل معافی جرم
اسلام نے اپنے متبعین کو اسلام کی تبلیغ کا حکم فرمایا لیکن مسلمان بنانے کے لئے کسی بھی زبردستی کو روا نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ محبوب! کیا آپ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ (یونس۱۰/۹۹) ۔ اور ارشاد فرمایا ’’محبوب! آپ فرمادیجئے کہ حق تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔‘‘(سورۃ الکھف ۱۸/۲۹)
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے غیر مسلمین کے ساتھ حسن سلوک، رواداری، مہمان نوازی، ضیافت، ان کی دعوتوں کو قبول کرنے ان کے یہاں کھانے، اپنی دعوتوں میں مدعو کرنے، ان کے ساتھ کاروبار کرنے، تحفہ تحائف کے تبادلے وغیرہ کسی سے منع نہیں کیا۔ بلکہ بحیثیت انسان ہر ایک کے ساتھ تمام انسانی اقدار و مراعات کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔
لیکن یہ بھی اعلان کردیا کہ ایک مرتبہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے برگشتہ ہونے کی اجازت نہیں۔ یہ اسلام کا کھلا دستور ہے کسی کو اسلام کے دروازے میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی داخل نہ ہو تو اس کے ساتھ کوئی نازیبا سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ لیکن کوئی شخص رضا و رغبت سے حلقہ بگوش اسلام ہوجاتا ہے تو اب اس کو مرتد ہونے کی اجازت نہیں رہے گی اور اگر وہ قبولیت اسلام کے بعد مرتد ہوجائے تو اسلامی سلطنت میں وہ ناقابل معافی جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کی وجہ سے حق حیات سے محروم ہوجائے گا۔ حدیث شریف کی رو سے تین افراد ایسے ہیں جو اپنے سنگین جرم کی پاداش میں حق زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔
نسائی شریف کتاب تحریم الدم باب ذکر مایحل بہ دم المسلم میں ہے : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کسی مسلمان کا خون حلال نہیں الا یہ کہ اس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو یا مسلمان ہونے کے بعد کفر اختیار کرلیا ہو یا کسی کی جان لی ہو‘‘
دارقطنی ص : ۱۳۸ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے ’’غزوہ اُحد کے موقع پر ایک عورت مرتد ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اس سے توبہ کرائی جائے اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میں ارتداد کی تحریک شروع ہوئی اور زور پکڑی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام سے مشاورت کے بعد ان سے جنگ کی اور ان کا مکمل صفایا کرنے تک برسر پیکار رہے۔ چنانچہ آپ نے مرتدین کی سرکوبی کے لئے گیارہ لشکر روانہ کئے۔ پہلا لشکر حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں طلیحہ اسدی، مالک بن نویرہ اور بعد میں مسیلمہ کذاب کے مقابلہ کے لئے، دوسرا لشکر حضرت شرحبیل کی سرکردگی میں، تیسرا حضرت شرحبیل بن حسنہ کی قیادت میں اسود عنسی کے مقابلہ کے لئے، چوتھا حذیفہ بن محصن کی سرکردگی میں عمان کی طرف، پانچواں عرفجہ بن ھرثمہ کی کمان میںاہل مھرہ سے جہاد کے لئے، چھٹا سوید بن مقرن کی زیرقیادت تہامۃ الیمن کی جانب، ساتواں حضرت العلاء بن الحضرمی کے تحت بحرین کی طرف، آٹھواں طریف بن حاجز کی کمان میں بنو سلیم اور بنو ہوازن کی جانب، نواں حضرت عمرو بن العاص کی سرکردگی میں مشارف شام کی طرف اور گیارہواں عکرمہ بن ابی جھل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کے مقابلے کے لئے روانہ کیا۔ بعدازاں حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت خالد بن ولید بھی اس معرکے میں شریک ہوگئے۔ ان سپہ سالاروں میں حسب ضرورت تبدیلی ہوتی رہی۔ (بدایۃ النھایۃ جلد ۶ص : ۳۰۵تا ۳۴۲)
ان محاذ آرائیوں کے نتیجے میں مختلف اسباب کے تحت رونما ارتداد کی تحریک بالکلیہ ختم ہوگئی اور اہل ردت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس طرح مرتد کی سزا قرآن مجید، احادیث شریف اور اجماع صحابہ سے اسلامی مملکت ہو تو حق حیات سے محرومی قرار پائی۔
اگر کوئی مرتد ہوکر مرے تو شرعی نقطہ نظر سے اس کو غسل نہیں دیاجائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں مسلمان کی تدفین کی طرح اس کو دفنایا جائے گا بلکہ گڑھے میں جانور کو پھینکنے کی طرح ڈال دیا جائے گا تاکہ دوسرے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور ان کو اندازہ ہوجائے کہ مرتد کی اس دنیا میں کیسی رسوائی ہے۔ البحر الرائق جلد دوم ص ۳۳۴ میں ہے واما المرتد فلا یغسل ولا یکفن وانما یلقی فی حفرۃ کالکلب ولا یدفع الی من انتقل الی دینھم کما فی فتح القدیر ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ’’جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوجائیں گے یہی لوگ ہیں جو دوزخ والے ہیں اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (البقرہ ۲/۲۱۷)
سورۂ آل عمران ۳/۸۶۔۸۹ میں ہے ’’اللہ ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے گا جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے حالانکہ وہ پہلے اُس کی گواہی دے چکے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم برحق ہیں اور اُن کے پاس واضح دلائل بھی آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا اُن لوگوں کی سزا یہ ہے کہ اُن پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ وہ اُس لعنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ اُن سے عذاب کو کم نہیں کیا جائے گا اور نہ اُن کو مہلت دی جائے گی مگر وہ لوگ جو اس کے بعد توبہ کئے اور اپنی اصلاح کرلئے پس یقینا اللہ تعالیٰ خوب بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔