اراضی سروے :تلنگانہ میں وقف اراضیات کو سنگین خطرہ لاحق

وقف بورڈ کی لاپرواہی،حیدرآباد میں بیٹھ کر تحفظ اراضی کے دعوؤں سے اوقافی اراضی کو بچایا نہیں جاسکتا

حیدرآباد ۔ 28ستمبر (سیاست نیوز)تلنگانہ حکومت کی جانب سے جاریہ اراضی سروے میں اوقافی اراضیات کو سنگین خطرہ لاحق ہے لیکن وقف بورڈ اراضیات کے تحفظ کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ 15 ستمبر سے ریاست کے ہر گاؤں میں اراضیات کے جامع سروے کا کام شروع ہوا لیکن آج تک بھی وقف بورڈ کی جانب سے اس سروے میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ وقف بورڈ اراضیات کے تحفظ کے سلسلہ میں خواب غفلت کا شکار ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق مواضعات میں وقف کی اراضیات پر جو افراد برسوں سے کاشت کر رہے ہیں، وہ اراضی پر اپنی دعویداری پیش کرتے ہوئے ریونیو ریکارڈ میں مالکانہ حقوق شامل کر رہے ہیں۔ سروے میں وقف عہدیداروں کی عدم موجودگی کے سبب کوئی بھی مالکانہ حقوق کو چیالنج کرنے والا نہیں ہے۔ تلنگانہ حکومت نے آئندہ سال سے کسانوں کو دو فصلوں کیلئے فی ایکر 8000 روپئے کی امداد کا اعلان کیا ہے ، لہذا اوقافی اراضیات پر زراعت کرنے والے کسی نہ کسی طرح ان اراضیات کو اپنی ذاتی اراضی قرار دے رہے ہیں اور عہدیدار اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ بورڈ کی جانب سے ابھی تک ریونیو ڈپارٹمنٹ کو اراضیات کے بارے میں کوئی ریکارڈ حوالے نہیں کیا گیا ۔ ایک بار ریونیو ریکارڈ میں اراضی کی ملکیت طئے ہونے کے بعد وقف بورڈ کی جانب سے لاکھ دستاویزات پیش کئے جائیں، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ بورڈ کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی کے باعث جاریہ اراضی سروے کے بعد دیہی علاقوں کی اوقافی اراضیات سے وقف بورڈ کو محروم ہونا پڑے گا۔ بارہا یہ اعلان کیا گیا کہ بورڈ اپنے انسپکٹر آڈیٹرس و دیگر عہدیداروںکو سروے میں شامل کرے گا۔

وقف بورڈ کے صدرنشین نے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے چیف سکریٹری ایس پی سنگھ سے نمائندگی کی جس پر انہوں نے ہدایت دی تھی کہ ہر ضلع سے متعلق وقف ریکارڈ متعلقہ ضلع کے ریونیو حکام کے حوالے کیا جائے تاکہ سروے میں مدد ملے لیکن ابھی تک بورڈ نے اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ حیدرآباد میں بیٹھ کر تحفظ اراضی کے دعوؤں سے اوقافی اراضی کو بچایا نہیں جاسکتا۔ بورڈ نے بعض ارکان اور عہدیداروں کو سروے کی نگرانی کی ذمہ داری دی تھی لیکن ابھی تک کسی نے بھی ایک ضلع کا بھی دورہ نہیں کیا۔ حکومت خود اس بات پر حیرت میں ہے کہ وہ وقف بورڈ کو اپنی اراضیات کے تحفظ میں دلچسپی کیوں نہیں۔ برخلاف اس کے انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ نے ہر ضلع میں خصوصی ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے ریوینیو عہدیداروں کو اپنی اراضیات کی نشاندہی کا کام جاری رکھا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سروے میں اگر کسی کا زیادہ نقصان ہوگا تو وہ اوقافی اراضیات کا ہوگا۔ بورڈ کو اراضیات کے تحفظ سے زیادہ انتقامی کارروائیاں اور سابقہ عہدیداروں کے خلاف تحقیقات سے فرصت نہیں ہے۔ بورڈ یہ سوچ کر مطمئن ہے کہ اوقافی اراضیات کی جانچ دوسرے مرحلہ میں کی جائے گی لیکن دوسرے مرحلہ کے آغاز تک وقف بورڈ کی غیر متنازعہ اراضیات قابضین کے حق میں جاسکتی ہے۔ وقف بورڈ نے گزشتہ 4 برسوں میں بورڈ کی جانب سے کئے گئے فیصلوں کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بورڈ خود اپنی حکومت کے فیصلوں کی جانچ کرنا چاہتا ہے ۔ عام طور پر کسی بھی اسکام کے سلسلہ میں سابقہ حکومت کے فیصلوں کی جانچ کی جاتی ہے لیکن یہاں ٹی آر ایس حکومت کے دور کے فیصلوں کی جانچ کی جارہی ہے ۔ بورڈ کی تشکیل سے قبل تین سال تک تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی حکومت رہی اور اقلیتی بہبود کا قلمدان چیف منسٹر کے پاس ہے۔ اس طرح وقف بورڈ نے خود اپنی حکومت کے خلاف تحقیقات کا احمقانہ فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ بورڈ کے لئے مہنگا ثابت ہوگا ۔ وقف ایکٹ کے مطابق وقف بورڈ کوئی بھی قرارداد اسی وقت منظور کرسکتا ہے جب دو دہائی اکثریت میں ارکان موجود ہوں۔ کل کے اجلاس میں صرف 6 ارکان شریک تھے جبکہ دو دہائی اکثریت کیلئے 7 ار کان کی ضرورت پڑتی ہے۔ وقف ایکٹ کے مطابق اکثریت کے بغیر منظورہ کوئی بھی قرارداد از خود کالعدم ہوجاتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت بورڈ کے حالیہ فیصلوں اور خاص طور پر تحقیقات کے اعلان پر کیا موقف اختیار کرے گا۔