اخلاقی دیوالیہ

دیکھ کر حال دور حاضر کا
قلب ہے اشک بار سمجھے نا
اخلاقی دیوالیہ
حکمرانوں ، سیاستدانوں اور بیوریو کریٹس کی خرابیوں میں ایسی بھی کچھ خرابیاں ہیں جن میں عوام نے اپنا تھوڑا حصہ ڈالا ہے کیونکہ عوام ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں جن کا ماضی داغدار ہوتا ہے یا سرگرم سیاست میں نیک نام نہیں رکھتے ۔ مغربی بنگال میں ان دنوں جواخلاقی دیوالیہ اور سیاسی خرابیوں کا تذکرہ عام ہوا ہے اس میں ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ تپس پال کی جانب سے خواتین کی عصمت ریزی کے تعلق سے کئے گئے ریمارکس کی تمام شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد نے مذمت کی ہے ۔ مغربی بنگال میں کسی کو دھمکی دینے اور دہشت گردی کی سیاست کو ہوا دینے والی اس حرکتوں کا سخت نوٹ لیتے ہوئے سابق حکمراں پارٹی سی پی ایم نے تپس پال کے خلاف کارروائی کے لئے پارلیمنٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس ریمارکس نے قومی سطح پر سیاسی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اس طرح کے تبصروں اور اظہار خیال سے سیاسی وقار کو کس حد تک نقصان پہونچ سکتا ہے ۔ اس طرح کے بیانات واضح طورپر اخلاقی گراوٹ ہے جس کے نتیجہ میں ارکان پارلیمنٹ کا وقار متاثر ہوتا ہے ۔ یہ پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کیلئے زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام کے درمیان اور عوام کے خلاف ہی ایسے بیہودہ ریمارکس کریں۔ اخلاقیات سے متعلق کمیٹی سے مسئلہ کو رجوع کرنے پر غور ہورہا ہے ۔ مگر اس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ آخر ارکان پارلیمنٹ کی سیاسی ، اخلاقی ، عوامی زندگیوں کو بااخلاق اور پروقار بنانے کیلئے کونسا ضابطہ و اصول وضع کرنا چاہئے ۔ مغربی بنگال میں گزشتہ 34 سال سے حکمرانی کرنے والی بائیں بازو پارٹیوں کی خرابیوں اورعوامی زندگیوں کو ترقی سے محروم کردینے کے مسئلہ پر اقتدار حاصل کرنے والی ترنمول کانگریس نے اپنے ارکان کو اخلاقی درس دینے کا فریضہ پورا نہیں کیا ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے مغربی بنگال کے حالات کے حوالے سے بہت کچھ تنقید کی ہیں۔ اس ریاست کی بگڑتی اور آہستہ آہستہ ہاتھ سے نکلتی صورتحال نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو متفکر کردیا ہے ۔ عوام کی تشویش بجا ہے کیوں کہ ترنمول کانگریس نے جن وعدوں اور عزائم کے ذریعہ بائیں بازو پارٹی کی دیرینہ حکمرانی کو شکست دی تھی اس کاتسلسل برقرار ہو یا اس میں مزید ابتری آئی تو سیاستدانوں کی غیرپختہ کاری اور نااہلی کاشکار عوام کو ہی ہونا پڑتا ہے ۔ترنمول کانگریس کی حکومت میںمغربی بنگال کے اندر اگر تشدد کو جائز قرار دیا جائے ، عصمت ریزی ، قتل ، بم حملوں اور گروہی تصادم کو ہوا دی جائے تو امن و امان کا مسئلہ سنگین ہوگا۔چیف منسٹر ممتا بنرجی نے ان واقعات کو نظرانداز کردیا یا اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو ان کی پارٹی کیلئے نقصاندہ ہے ۔ ضلع ہوگلی میں دھیناکھلی مقام پر قاضی نذیرالدین کے ارکان خاندان ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر انصاف کا مطالبہ کیاتو عدالت نے قتل کیس کی سی بی آئی تحقیقات کا حکم دیا کیونکہ ریاستی کریمنل انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کاکام غیراطمینان بخش تھا ۔ اسی طرح ریاست میں عوام کے جان و مال کی حفاظت سرکاری مشنری کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن موجودہ واقعات کو ترنمول کانگریس سابق کی سی پی ایم حکمرانی کی خرایبوں کا تسلسل قرار دے کر خود کو سفید پوش ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے ، لاقانونیت اور تشدد سے متعلق واقعات ایسے وقت رونما ہوتے ہیں جب سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کی جاتی ہے ۔ کسی کو اکسانے اور تشدد کو بھڑکانے کا عمل جاری رہتا ہے تو پھر مغربی بنگال یا کسی بھی ریاست میں جمہوریت کا نظریہ پامال ہوجاتا ہے ۔ 3 سال قبل ممتا بنرجی نے مغربی بنگال کے عوام سے وعدہ کیا تھاکہ وہ ریاست میں 34 سال کی بائیں بازو حکمرانی کی خرابیوں سے وہ چھٹکارا دلائیں گی اور سی پی ایم کو آئندہ 30 سال تک ریاست میں اقتدار کا خواب دیکھنے کا موقع نہیں دیا جائے گا مگر حالیہ واقعات نے عوام کو ماضی کی حکومت کے احیاء کی جانب توجہ دینے پر مجبور کیا ہے تو پھر ایک بار تبدیلی کے دروازے کھل جائیں گے ۔ ترنمول کانگریس سربراہ کو اپنی پارٹی کے ارکان اور منتخب قائدین پر گرفت رکھنی ہوگی اس کی عدم کارکردگی یا موقتی طورپر بیان دینے سے حالات کی سنگینی کم نہیں ہوگی ۔ ممتا بنرجی کی چند پانی کی بوندیں ترنمول کانگریس اور سیاست میں لگی خرابی کی آگ کو بجھا نہیں سکیں گے ۔ اقتدار حاصل کرنے سے قبل سیاستداں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عوام کو بہتر زندگی ایثاری کا فرض ہے مگر اقتدار پر آنے کے بعد اس کا اُلٹا اثر دکھائی دیتا ہے ۔ اس روش کا یہ نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ عوامی طاقت کا سرچشمہ ہماری پارلیمانی تہذیب جوں جوں بے وقاری ، بے عزتی اور ناتوانی کے زخموں سے نڈھال ہوتی جارہی ہے ۔ سیاستداں انتخابی شدت سے غیراخلاقی مکالمے و اعمال کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ کسی بھی ریاست کی حکمرانی کرنے کا فن دنیا کا سب سے اعلیٰ اور نازک فن ہے جو سیاسی تربیت کے ذریعہ فروغ پاتا ہے اور عوام الناس کے لئے شادمانی اور آسودگی کا باعث بنتا ہے جو پارٹیاں یا سیاستداں اس فن سے محروم رہتی ہیں وہاں عوام کو مصائب و مشکلات ہی درپیش ہوں گے ۔ اس لئے عوام الناس کی اکثریت کو یہ غور کرنا چاہئے کہ انھیں ووٹ دینے کے حق کا کس طرح استعمال کرنا ہے ۔ مرکز سے لیکر ریاستوں تک ووٹ دینے کا طریقہ اور ارکان کے انتخاب کا مزاج تبدیل ہوگیا ہے تو اس تبدیلی سے پھوٹنے والی خرابیوں کا شکار عوام کو ہی ہونا پڑے گا اور آنے دالے دنوں میں سیاسی و سماجی معاشرہ فالج زدہ پارلیمنٹ منتخب کرے تو بعد کی کیفیت اور حالات کیسے ہوں گے یہ عوام غور کرسکتے ہیں۔
ضروری اشیاء کی قیمتیں اور ذخیرہ اندوزی
نریندر مودی حکومت ملک میں غذائی اجناس اور دوسری ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف ناقابل ضمانت جرم کا قانون بنانے پر غور کررہی ہے ۔ ضروری اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خور اندھا دھند طریقہ سے عوام الناس کو لوٹ رہے ہیں ۔ پیاز کی قلت اور پیداوار میں تاخیر کے بہانے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ۔ وزارت فینانس کا یہ خیال ہے کہ ملک میں غذائی اجناس کا وافر مقدار میں ذخیرہ ہے لہذا عوام الناس کو پریشان و متفکر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ارون جیٹلی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ 3 تا 4 ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے مارکٹ میں اس کی قلت پیدا کردی گئی ہے۔ جب حکومت کی نظر میں ضروری اشیاء کی کافی مقدار موجود ہے تو عوام کو اضافہ قیمتوں پر فروخت کرنے والے بیوپاریوں ، کالا بازاریوں کے خلاف کارروائی کرنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے ۔ ملک میں پیاز کی نئی فصل آنے میں تاخیر کی وجہ سے اس ضروری شئے کی قیمت بڑھادی گئی ۔ وزیر غذا و اُمور صارفین رام ولاس پاسوان ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کرنے ان پر مقدمہ چلانے کیلئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کے قیام سے متعلق تجویز پر غور کرنے کااشارہ دیا ہے ۔ اس طرح کی باتیں صرف وقتی طورپر عوام کی ناراضگی کو دور کرنے کا حربہ معلوم ہوتی ہیں ۔ حقیقت میں حکومت اور نظم و نسق کا مارکٹ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ زرعی پیداوار کو فروغ دینے والے اقدامات کرنے سے بھی حکومت قاصر ہے ۔ کل تک اپوزیشن میں بیٹھ کر یو پی اے حکومت کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھانے والی بی جے پی آج عوام کے لئے جوابدہ ہیکہ آخر اس نے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کونسا تیر بہدف حل نکالا ہے ۔ حکومت نے پیاز اور آلو کو ضروری شیاء میں شمار کرنے کافیصلہ کیا ہے لیکن اس قانون کے باوجود یہ تعین نہیں کیا جاسکتا کہ ذخیرہ اندوزی ، کالا بازاریوں ، منافع خوری کے حوصلے پست ہوں گے تاوقتیکہ حکومت سخت اقدامات کرتے ہوئے برسرعام کارروائی نہیں کرتی ۔ عوام کو دکھائی دینے والے کام انجام نہیں دیتی مہنگائی کا گراف اونچا ہی رہے گا بلکہ اس میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوگا ۔