اختلاف رائے، سپریم کورٹ کا ریمارک

ہم جیسے سرفروش ہی آئیں گے سامنے
قربان کون پوچھئے ہندوستاں پہ ہے
اختلاف رائے، سپریم کورٹ کا ریمارک
ملک کے مختلف حصوں سے سماجی جہد کاروں اور حقوق انسانی کارکنوں کی گرفتاری نے یہ واضح کردیا ہے کہ حکومتیں اب اختلاف رائے کو برداشت کرنے تیار نہیں ہیں اور خاص طور پر بی جے پی کے اقتدار میں تو انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سماجی کارکنوں کو بھی حکومت کے خلاف رائے اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں دیا جائیگا ۔ سماج کے پچھڑے ہوئے طبقات اور دبے کچلے لوگوں کی مدد کرنے اور ان کے حقوق کیلئے اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو حکومتیں برداشت نہیںکریں گی ۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان جہد کاروں کو ان کے گھروں پر نظربند کرنے کے احکام دیتے ہوئے ایک ریمارک کیا ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ نے ریمارک کیا کہ اختلاف رائے جمہوریت کے تحفظ کیلئے اہمیت کی حامل ہے ۔ یقینی طور پر جمہوری اصولوں میں اختلاف رائے کی پوری گنجائش ہے اور اس کا احترام بھی کیا جانا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اختلاف رائے کے نام پر قانون کی خلاف ورزی کی کوئی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ کوئی ماورائے قانون اتھاریٹی ہوسکتی ہے ۔ دستور اور قانون کی بالادستی سب کیلئے مسلمہ ہے اور ہر ہندوستانی شہری اس کا احترام کرتا ہے اور اسے کرنا ہی چاہئے ۔ تاہم اسی دستور اور قانون نے ملک میں ایک سے زائد رائے رکھنے کا بھی احترام کیا ہے بلکہ یہ سماجی اور جمہوری اقدار میں انتہائی ضروری امرہے ۔ ہندوستان کی یہ روایات رہی ہیں کہ اختلاف رائے کا پورا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کی مثال ہندوستان کا ہمہ جہتی کلچر ہے ۔ یہاں ہندو مسلم ‘ سکھ عیسائی سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کوئی کسی کے مذہبی اصولوںکو خود نہیں مانتا لیکن ان کا احترام اور پاس و لحاظ ضرور کرتا ہے ۔ یہی مثال ہماری پارلیمنٹ کی ہے ۔ یہاں مختلف نظریات رکھنے والے عوام کے نمائندے منتخب ہوکر پہونچتے ہیں اور جمہوریت کے اس اعلی ترین مقام پر بھی سب کو اپنے نظریات اور خیالات پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ یہی ہندوستانی کلچر اور روایات اور ہماری جمہوریت کا طرہ امتیاز رہا ہے اور یہ انفرادیت کسی اور ملک کو شائد ہی حاصل رہی ہو ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اب اس روایت اور ان اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ زندگی کے تقریبا ہر شعبہ میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا رجحان سرکاری طور پر ختم کیا جا رہا ہے ۔ پہلے تو حکومت یا اسکے نمائندوں یا اس کے ذمہ داروں سے اختلاف کرنے والوںکو قوم مخالف قرار دینے کی روایت چل پڑی ہے ۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر لوگوں کی حب الوطنی کے فیصلے ہونے لگے ہیں۔ کسی کی مذہب روایات کو خطرہ قرار دے کر ان کو ختم کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ کہیں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو ملک چھوڑنے کیلئے کہا جا رہا ہے تو کہیں اس ملک کو تمام اقلیتوں سے پاک کرنے کے دعوے ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ عدم رواداری کی مثالیں ہیں اور یہ سارے کام حکومت کی راست یا بالواسطہ تائید کے بغیر نہیں ہوسکتے ۔ جو عناصر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ کسی نہ کسی اعتبار سے حکومت یا برسر اقتدار جماعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ملک میں جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہ ہندوستانی کلچر اور روایات کے مغائر ہے ۔ اس سے جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑ رہی ہیں اور عوام میں خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے ۔اب حد تو یہ ہوگئی کہ سماج کے دبے کچلے اور مفلوک الحال گوشوں کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا جار ہا ہے اور انہیں نشانہ بنانے حکومتیں سرکاری ایجنسیوں اور پولیس و تحقیقاتی اداروں کا بیجا استعمال کرنے لگی ہیں۔ یہ روایت ہندوستان کیلئے اچھی علامت ہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔
دنیا بھر میں جہاں کہیں جمہوریت ہے وہاں اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کو تو یہ امتیاز حاصل رہا کہ یہاںاختلاف رائے کا سب سے زیادہ احترام ہوتا رہا ہے لیکن اب اس روایت کو بدلا جا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے معزز جج نے جو ریمارک کیا ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور جو حکومتیں اور سیاسی جماعتیںو قائدین اختلاف رائے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیںانہیں کم از کم اب اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ناکامیوں اور خامیوں کو چھپانے کیلئے اس طرح مخصوص گوشوںکو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور ایک مہذب اور سیول سماج میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ ایک مخصوص نظریہ کے تابع سارے ملک کو نہیں لایا جاسکتا ۔ قانون اور دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے اختلاف رائے ہندوستان کا طرہ امتیاز ہے اور اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔