مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
انسان کی زندگی کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ہر ہر قدم پر احتیاط ملحوظ رکھے جب بھی کوئی قدم اٹھایا جائے سونچ سمجھ کر اٹھایا جائے، کسی سے کوئی معاملہ کرنا ہو تو پورے سونچ بچار کے ساتھ کیا جائے، گفتگو میں، رکھ رکھائو میں، برتائو میں، غرض طرز زندگی کے سارے پہلوئوں میں احتیاط کو پیش نظر رکھا جائے، کہیں زبان کھولنی ہو تو وہاں بھی احتیاط کی شدید ضرورت ہے، احتیاط کہتے ہیں بچائو کرنے کو، ہوشیاری برتنے کو، چوکسی ملحوظ رکھنے کو اور دور اندیشی اختیار کرنے کو، توجہ اور حَزم سے کام لینے کو، روک تھام کرلینے کو، بصیرت اور عاقبت اندیشی کو بھی احتیاط کہتے ہیں، حفاظتی تدابیر اختیار کرنا انسانوں کے شر اور شیاطین کے شر سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی کرنا بھی احتیاط میں داخل ہے۔
اللہ سبحانہ نے کسی کو مال و دولت دی ہو تو اس میں بھی احتیاط مال و دولت کی حفاظت و بقا کی ضامن ہوتی ہے، اسی لئے حق سبحانہ و تعالی نے ہدایت فرمائی ہے کہ اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھے نہ رکھو اور نہ ہی اسے بالکلیہ کھلا چھوڑ دو کہ اس سے یہ نوبت نہ آجائے کہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگو اور حسرت ویاس سے ہاتھ ملتے رہو ۔ (۱۷؍ ۲۹)
اس آیت پاک میں ’’ملوما محسورا‘‘ فرمایا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ خرچ کرنے میں ایسی احتیاط کہ اس میں نہ تو کوئی اسراف ہو اور نہ ہی کوئی بخل سے کام لیا گیا ہو، اسراف و فضول خرچی سے مراد وہ طرز عمل ہے جس میں وسعت و گنجائش دیکھے بغیر اور آئندہ کے احوال پر نظر کئے بغیر آنکھ بند کر کے بے دریغ مال خرچ کیا جاتا رہے،
یہ بھی نہیں کہ اس قدر بخل سے کام لیا جائے کہ جس سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی بنیادی ضروریات و ضروری حوائجات کی تکمیل نہ ہو، بخل و کنجوسی قابل ملامت عادت ہے اس لئے ملامت و مذمت اس کے حصہ میں آتی ہے، اس لئے اس کو’’ ملوم‘‘ کہا گیا، ’’محسور‘‘ کہتے ہیں ایسے جانور کو جو بہت چلنے سے تھک چکا ہو اور آگے قدم بڑھانے کی سکت اس میں باقی نہ رہی ہو، فضول خرچی کرنے والے بھی مال خرچ کرتے کرتے جب اپنی پونجی ختم کر لیتے ہیں تو وہ تھکے ہارے بیٹھ جاتے ہیں، اب آگے ضروریات کی تکمیل کے لئے خرچ سے عاجز آجاتے ہیں، اس آیت پاک میں یہی احتیاط سکھائی گئی ہے کہ نہ تو حد درجہ بخل کیا جائے اور نہ ہی کوئی زیادہ فضول خرچی و اسراف کو روا رکھا جائے۔
قرآن پاک میں رشتہ داروں، مساکین، اور مسافروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کے ساتھ بے جا اسراف سے روکا گیا ہے، اگر مالی استطاعت ان اہل حق کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہ دے اور ان سے معذرت کرنے کی نوبت ہو تو اس اظہارِ معذرت میں بھی اسلام نے احتیاط کی تلقین کی ہے، ان کے ساتھ معذرت کے اظہار میں روکھا پھیکا پن نہ ہو، ترشی و بداخلاقی کا اظہار نہ ہو، نہ ہی لب و لہجہ کرخت ہو، نہ کسی طرح کی کوئی جھنجھلاہٹ ہو، بلکہ عمدہ پیرایۂ بیان میں نرمی کے ساتھ عذرخواہی کرلی جائے، ایسی نرمی جس میں پیار ہو، محبت ہو، لگاوٹ ہو، عذر خواہی میں یہ احتیاط بھی بہت بڑی نیکی ہے، اس حسن ترغیب کے قربان جائیے کہ حق سبحانہ و تعالی نے ’’فقل لہم قولا میسورا ‘‘ (۱۷؍۲۸)میں حسن اخلاق کا برتائو کرتے ہوئے عذر خواہی میں احتیاط برتنے کے عمدہ اسلوب کی ایک دنیا سمودی ہے،
قولِ میسور کی جامعیت اور اس کی حسن بلاغت ایسی عظیم ہے کہ دوسری کسی زبان میں اس کو ادا کرنے کیلئے کئی الفاظ کا سہارا لیا جائے تب بھی اس کی پوری وضاحت تشنہ کام ہی رہے گی۔ کسی حاجت مند دست سوال دراز کرنے والے کی حاجت کو پورا کرتے ہوئے تکلیف دہ رویہ اختیار کرنے یا احسان جتاتے ہوئے اذیت سے دو چار کرنے کی وجہ اجر آخرت سے محرومی حصہ میں آتی ہے اور حق سبحانہ و تعالی کی ناراضگی اس کی رحمتوں سے دوری کا سبب بن جاتی ہے، اس کے برخلاف نرم بات کہتے ہوئے خندہ پیشانی کے ساتھ اچھی بات کہنے اور اس کے کسی رد عمل میں درگزر سے کام لینے کو پسند کیا گیا ہے، احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ کسی سائل کی مدد کر دی جائے تو کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کی تحقیر ہوتی ہو یا اس کی عزت نفس پر ضرب پڑتی ہو، یہ بد احتیاطی بہت بڑا جرم ہے ’’روز حشر اللہ سبحانہ و تعالیٰ جن سے بات کرنا تک پسند نہیں فرمائیں گے ان میں سے ایک احسان جتانے والا بھی ہے‘‘۔ (مسلم کتاب الایمان)۔
قرآن پاک میں ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے قول معروف یعنی نرم بات کہنا اور مغفرۃ یعنی معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے ساتھ کسی کو تکلیف پہونچائی گئی ہو، اللہ سبحانہ بے نیاز اور بردبار ہے (۲/۲۶۳)۔
معذرت کرتے ہوئے عمدہ لب و لہجہ اور عمدہ اسلوب اختیار کریں، معذرت خواہی کے اس احتیاطی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنے اور اس کے حق میں دعائیہ کلمات بھی کہے جاسکتے ہیں کہ اللہ مجھے بھی اور تمہیں بھی اپنے بے نہایت فضل و کرم سے نوازے اور جو حاجتیں ہماری ہیں اللہ ان کو پوری فرمائے، یہ بھی ایک عمدہ اسلوب ہے سائل کو رخصت کرتے ہوئے اس سے درگزر کرلینے کا۔اس آیت پاک میں اسی کو قول معروف سے تعبیر کیا گیا ہے۔’’مغفرۃ‘‘ کے ایک معنی جہاں ردعمل میں در گذر کرنے کے ہیں وہیں سائل کی خستہ حالی کی پردہ پوشی کرنے کے بھی ہیں، اس احتیاط کے ساتھ اس موقع پر جو کلام ہوگا وہ بھی حدیث پاک کی رو سے صدقہ اور نیکی ہے، ’’الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ‘‘(مسلم کتاب الایمان)۔
لب و لہجہ کی نرمی ہی نیکی نہیں ہے بلکہ عملی رویہ جیسے کوئی کسی سائل سے یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرے تو وہ بھی ایسی نیکی ہے کہ جس کو حقیر نہ سمجھا جائے (مسلم، کتاب البر)۔ سائل کے ساتھ لفظی در گزر میں عمدہ اسلوب جہاں نیکی ہے وہیں خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے اس کو رخصت کرنا بھی نیکی ہے، اسلام نے جہاں الفاظ کے استعمال میں احتیاط کی تعلیم دی ہے وہیں رویے اور برتائو میں بھی احتیاط کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تحسین کی ہے۔
ایک حدیث پاک میں ہے زبان کی بے احتیاطی بسااوقات دوزخ میں جھونکے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ تو آخرت کا بڑا خسارہ ہے جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں لیکن اس دنیا میں بسااوقات زبان کی تھوڑی سی بے احتیاطی انسان کو تختہ دار تک پہونچاسکتی ہے، جب کہ قدموں کی لغزش ہو سکتا ہے زخمی کر دے یا کسی عضو میں کوئی شکست آجائے ظاہر ہے جسمانی زخم مندمل ہوسکتا ہے، اعضاء کی شکست و ریخت کی اصلاح کر لی جاسکتی ہے لیکن زبان کی بد احتیاطی سے آئی ہوئی مصیبت کا دور ہو جانا آسان نہیں ہے،جعفر بن محمد ایک عربی شاعر ہیں انہوں نے ’’عثرۃ اللسان‘‘ کے عنوان سے دو شعر منظوم کئے ہیں ان میں اسی حقیقت کو اجاگرکیا گیا ہے،
یموت الفتی من عثرۃ بلسانہ
ولیس یموت المرء من عثرۃ الرجل
فعثرتہ من فیہ ترمی براسہ
وہ عثرتہ بالرجل تبرا علی مہل
احتیاط کی وجہ انسان دنیا کے بہت سے ضرر و نقصان سے محفوظ رہ سکتا ہے، اور اخروی گرفت سے بھی اس کی حفاظت ہو سکتی ہے، بد احتیاطی خواہ وہ کسی شعبہ میں ہو انسان کو مصائب و مشکلات سے دو چار کرسکتی ہے، اور اخروی عذاب و عتاب بھی اس کے حصہ میں آسکتا ہے، میل ملاپ میں بھی احتیاط ہزار مصیبتوں سے بچاتی ہے، احتیاطی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپسی تعلق اور میل ملاپ جہاں محبت کے بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں وہیں اس میں تھوڑی سی بے احتیاطی تعلقات میں دراڑ قائم کرسکتی ہے اسی لئے اسلام نے اس میں بھی احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کی ہے، ایک قول مشہور ہے جس کو بعضوں نے حدیث بھی کہا ہے اگر وہ حدیث نہ بھی ہو تو وہ قول اس قابل ہے کہ میل ملاپ تعلق و ارتباط میں احتیاط ملحوظ رکھی جائے، اور وہ قول یہ ہے ’’ زر غبّا، تزددحبّا‘‘ تاہم احادیث پاک کے مستند ذخیروں جیسے مستدرک حاکم ، المعجم الکبیر للطبرانی ،جامع الاحادیث لجلال الدین سیوطی اور کنزل العمال میں اس کو حدیث پاک کی حیثیت سے نقل کیاگیا ہے ۔
یعنی ملاقات اور میل ملاپ میں فاصلہ رکھا جائے جس سے محبت بڑھ سکتی ہے، اس کے برعکس مسلسل ملاقات اور بار بار کا میل ملاپ اختلاف و دوری پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، غالباً حضرت امیر مینائی کا شعر ہے یہ بھی احتیاط کا درس دیتا ہے۔
گاہے ماہے کی ملاقات بس اچھی ہے امیر
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا