پروفیسر کودنڈا رام کی طلبہ و نوجوانوں میں غیرمعمولی مقبولیت سے حکومت اُلجھن کا شکار ، اپوزیشن سے بھی رابطہ کی کوشش
حیدرآباد۔23 فبروری (سیاست نیوز) تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے بے روزگار نوجوانوں کی ریالی کے اعلان کے دن کل عثمانیہ یونیورسٹی اور دیگر کالجس میں پیش آئے واقعات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے جے اے سی میں پھوٹ پیدا کرنے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ صدرنشین جے اے سی پروفیسر کودنڈارام کو ریالی کے سلسلہ میں طلبہ اور نوجوانوں کی جانب سے جس طرح غیر معمولی تائید حاصل ہوئی اس سے حکومت الجھن کا شکار ہے۔ بائیں بازو جماعتوں اور اس کی محاذی تنظیموں نے بھی ریالی کی تائید کی تھی۔ پولیس نے اگرچہ ریالی کی اجازت نہیں دی اور مختلف مقامات پر ریالی کے آغاز کی کوششوں کو ناکام بنادیا تاہم جس انداز میں نوجوانوں نے حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اس سے پریشان ہوکر چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے اپنے بااعتماد رفقاء کے ساتھ اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ تروپتی سے واپسی کے فوری بعد چیف منسٹر نے پولیس عہدیداروں اور پارٹی کے بااعتماد قائدین کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے کسی بھی صورت میں جے اے سی کو مستقبل میں مخالف حکومت پروگراموں سے روکنے حکمت عملی تیاری کی ہے جس کے پہلے قدم کے طور پر جے اے سی میں اختلافات پیدا کیئے جائیں گے۔ کودنڈارام کے ساتھی ان کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کھل کر اظہار خیال کریں گے تاکہ جے اے سی کے امیج کو متاثر کیا جاسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی قائدین اور خاص طور پر وزراء اور عوامی نمائندوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ میڈیا سے رجوع ہوکر کودنڈارام کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کریں۔ حکومت نے بے روزگاروں کی ریالی سے متعلق خبروں کو روکنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کو اپنے اعتماد میں لے لیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی ٹی وی چینلس کے ذمہ داروں نے حکومت کے دبائو کے تحت کودنڈارام کی گرفتاری اور یونیورسٹی میں ہنگامہ کی رپورٹ کو اہمیت کے ساتھ پیش نہیں کیا۔ یہ وہی ٹی وی چینلس تھے جنہوں نے تلنگانہ تحریک کے دوران پولیس مظالم اور طلبہ کے احتجاج کو نہ صرف بڑھاچڑھاکر بلکہ لائیو پیش کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر اور ان کے ساتھی اس بات پر مطمئن ہیں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کودنڈارام کی مخالف حکومت مہم کو خاطرخواہ جگہ نہیں مل سکی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت اور ٹی آر ایس کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے ربط قائم کرتے ہوئے انہیں کودنڈارام کی تائید سے باز رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کا استدلال ہے کہ کودنڈارام نے سیاسی میدان میں قدم رکھنے اور نئی پارٹی کے قیام کا اشارہ دیتے ہوئے اپنے عزائم کو آشکار کردیا ہے۔ لہٰذا جے اے سی کے ذریعہ سیاسی عزائم کی تکمیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ کانگریس، تلگودیشم اور بائیں بازو جماعتوں کے تلنگانہ قائدین سے ربط قائم کرتے ہوئے انہیں کودنڈارام کی تائید سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ کودنڈارام اور ان کی تحریک کی تائید کے سلسلہ میں کانگریس میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اے آئی سی سی قائد ڈگ وجئے سنگھ کے حالیہ دورہ حیدرآباد کے موقع پر یہ مسئلہ زیر بحث آیا۔ لیکن پارٹی نے کودنڈارام کی مہم کی باہر سے تائید کرنے کا فیصلہ کیا۔ خود کودنڈارام بھی نہیں چاہتے کہ جے اے سی کے احتجاجی پروگراموں میں سیاسی قائدین شرکت کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اہم سیاسی قائدین نے ملاقات کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچنے کی زحمت نہیں کی۔ کودنڈارام اور ان کی تحریک سے حکومت آخر کیوں خوفزدہ ہے۔ یہ سوال خود برسر اقتدار پارٹی کے قائدین کررہے ہیں۔ نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بعض قائدین نے کہا کہ چیف منسٹر کی ضد اور ہٹ دھرمی کے رویہ کے سبب یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ تلنگانہ تشکیل اور حکومت کے قیام کے بعد سے چیف منسٹر نے کودنڈارام سے ملاقات نہیں کی۔ اگر وہ چاہتے تو جے اے سی قائدین کو تقررات کے سلسلہ میں حکومت کے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے اجلاس منعقد کرسکتے تھے۔ ایسی صورت میں جے اے سی احتجاج سے دستبرداری بھی اختیار کرسکتی تھی۔ لیکن چیف منسٹر نے جے اے سی کے احتجاج کو اہمیت نہ دینے کا فیصلہ کیا اور پولیس کے ذریعہ کچلنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ طلبہ کی برہمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔