لکھنؤ ، 5 مئی (یو این آئی ) اتر پردیش کے گلی کوچوں سے لیکر کھیت کھلیانوں تک آوارہ گھوم رہے جانوروں سے عوام کافی خوف زدہ ہیں ۔ گذشتہ چار دنوں کے اندر سیتا پور سمیت دیگر علاقوں میں آوارہ کتوں نے 12 سے زیادہ معصوم افراد کو اپنا نشانہ بنایا ہے ۔ دوسری جانب مصرو ف سڑکوںپر گھومتے ہوئے مویشی سڑک حادثے کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ دیہی علاقے میں بھی عوام جھنڈ کی شکل میں گھوم رہے مویشیوں سے ڈرے سہمے رہتے ہیں ۔ عام لوگوں سے لیکر افسر طبقے کے افراد بھی ان آوارہ گھوم رہے جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے سرکاری پالیسی کو ذمہ دار مانتے ہیں مگر وہ اس کے متعلق کچھ بھی بولنے سے ڈرتے ہیں ۔ لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے ایک سینئر افسر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر کہا کہ قصاب خانے پر لگی پابندی ان آوارہ جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے ذمہ دار ہے ۔ سیتا پور میں آدم خور کتوں کے حملے سے گذشتہ تین مہینے میں 12 بچے ناوقت موت کے شکار ہوئے ہیں ۔ ان کتوں کی دہشت اس قدر زیادہ ہے کہ گاؤں والوں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کردیا ہے ۔ گاؤں والوں کی ٹولیاں آدم خور کتوں کو بھگا رہی ہے ۔ کچھ کو مارا بھی گیا ہے مگر اس کے باوجود کتوں کی دہشت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔ ایسی حالت میں لوگوں نے اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار لیکر چلنا بھی شروع کر دیا ہے ۔ اڈیشنل ایس پی مدھو بن کمار سنگھ نے بتایا کہ شہر کوتوالی کے برہان پور گاؤں کے رہنے والے ویرندر (12) کل باغ میں آم چننے گیا تھا اسی بیچ آوارہ کتوں کے جھنڈ نے اس پر حملہ کر دیا ۔ سنگین طور پر زخمی ہونے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی ۔ دوسرا واقعہ تھانہ خیر آباد علاقہ کے محسی پور گاؤں میں پیش آیا جہاں محسی پور گاؤں کی گیتا (6) کھیت کی طرف جارہی تھی کہ اچانک کتوں کے جھنڈ نے اس پر حملہ کردیا ۔ اس حملہ میں گیتا سنگین طور پر زخمی ہو گئی اور گاؤں والوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اس کی موت ہو گئی ۔ گاؤں والوں نے کتوں کا کافی دور تک پیچھا کیا ۔گذشتہ دنوں گر پلیہ ٹکریا کولیا گاؤں مین تین بچوں کو کتوں نے نوچ نوچ کر مار ہی ڈالا ۔ انتظامیہ نے محکمہ جنگلات کے سٹی مجسٹریٹ کی قیادت میں ایک ٹیم بنائی تھی جس نے پنجرہ لگا کرآٹھ کتوں کو پکڑ لیا ۔ گاؤں والوں نے گھوم گھوم کر ایک درجن سے زیادہ کتوں کو مار ڈالا ۔ اتنا ہی نہیں کتوں کے حملے میں چوبے پور کی سولہ سالہ رنکی اور پیر پور کا 5 سالہ بکول کو گھائل کر دیا ۔ کتوں کی دہشت شہری علاقے میں بھی کم نہیں ہے ۔ کانپور ، لکھنؤ ، بنارس ، میرٹھ ، الہ آباد اور بریلی سمیت تمام شہروں میں آوارہ کتے اور سانڈ راہ چلتے لوگوں اور خاص کر بائک سواروں کی جان کی دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ پولیس ذرائع کے مطابق گذشتہ 6 ماہ کے دوران سانڈ ، گائے اور کتوں کے وجہ سے ہونے والے سڑک حادثوں کی تعداد میں خاصا اضافہ درج کیا گیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ میونسپل کارپوریشن کے دستے آوارہ جانوروں کو پکڑنے کے لئے وقت وقت پر مہم چلاتے ہیں مگر زیادہ تر یہ محض دکھاوا ہے ۔ ایک محلے کے جانوروں کو پکڑ کر کارپوریشن کا دستہ سنسان علاقے میں لے جاکر چھوڑ دیتا ہے ۔ جس کے بعد وہ اس علاقہ میں دہشت کا سبب بن جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ناجائز قصاب خانے میں لگی پابندی بھی کافی حدتک ان آوارہ جانوروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب ہے ۔ موہن لال گنج علاقہ کے دیہی علاقے میں نیل گائے اور آورہ جانوروں کا خوف پھیلا ہوا ہے ۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ کھلے جانور موقع ملتے ہی ان کی فصل کھاجاتے ہیں اور ڈرے ہوئے جانوروں کا جھنڈ دوسرے علاقے میں چلا جاتا ہے ۔تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے تنہا کسان اپنی فصل کو ان سے بچانے میں خود کو مجبور پاتا ہے ۔