اترپردیش سے پہلے اپنے حلقہ کی ترقی عزیز ہوتی

!کاش
اترپردیش سے پہلے اپنے حلقہ کی ترقی عزیز ہوتی
حیدرآباد۔4اپریل (سیاست نیوز) شہر حیدرآباد کی ترقی اور عوامی مسائل کا رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے جائزہ لینا شروع کردیا ہے اور تمام متعلقہ عہدیداروں کے ہمراہ گذشتہ دو یوم سے اپنے حلقہ انتخاب میں مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں حل کروانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا افتتاح بھی انجام دیا جا رہا ہے۔ گذشتہ یوم حلقہ اسمبلی بہادر پورہ کے علاقوں میں پیدل دورہ کے دوران رکن پارلیمنٹ ایک مقام پر گندگی سے بچنے کے لئے دیوار اور پتھروں کا سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ تصویر سوشل میڈیا پر خوب گشت کر رہی ہے اور اس تصویر پر کئی لوگ مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔ نواب صاحب کنٹہ ہی نہیں شہر کے کئی علاقو ں میں ایسے حالات ہیں جنہیں حل کروانا رکن پارلیمنٹ کا نہیں بلکہ متعلقہ رکن اسمبلی و رکن بلدیہ کا کام ہے لیکن ان کی اس نااہلی پر پارٹی کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی پر عوام میں تشویش پائی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جن علاقوں میں بلدی مسائل کے علاوہ آبرسانی اور برقی کے مسائل حل نہیں کئے جاتے ان علاقو ں کے ارکان بلدیہ و ارکان اسمبلی کا پارٹی اور متعلقہ رکن پارلیمنٹ کی جانب سے محاسبہ کیا جانا چاہئے۔ بلدی انتخابات کے فوری بعد صدر کی حیثیت سے کارپوریٹرس کے اجلاس سے خطاب کے دوران ماہانہ اور سہ ماہی رپورٹ طلب کرنے کے اعلان کے باوجود ایسا نہ کئے جانے کے سبب منتخبہ عوامی نمائندوں کے متعلق عوام میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن وہ ان شکایات کو آگے پہنچانے میں خوف محسوس کرتے ہیں۔ پرانے شہر کی گلیوں کے پیدل دورہ کے دوران رکن پارلیمنٹ کو شائد اس بات کا اندازہ ہو رہا ہوگا کہ وہ ملک کی مختلف ریاستوں میں حیدرآباد کی جس ترقی کا تذکرہ کررہے ہیں وہ حیدرآباد کا پرانا شہر کس حالت میں پہنچ چکا ہے اور عوام کن مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ پرانے شہر کے کئی علاقو ںمیں آبرسانی مسائل کے علاوہ ڈرینیج کے مسائل کے ساتھ ساتھ روزانہ کے اساس پر کچہرے کی عدم نکاسی اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ان مسائل کے حل پر توجہ مرکوز نہ کئے جانے کے سبب عوام میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ قائدین کو انہیں ووٹ دینے والے عوام کے مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اسی لئے انہیں بے یار و مددگار چھوڑتے ہوئے دیگر ریاستوں کے مسائل کے حل کیلئے دیگر ریاستوں کی حکومتوں سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مصروفیت کے سبب مسائل حل نہیں ہو پا رہے ہیں۔