مولانا غلام رسول سعیدی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جس قدر چیزیں پیدا فرمائی ہیں، ان کو تدریجاً اپنے کمال طبعی تک پہنچایا ہے۔ جب تک کوئی شے اپنے کمال طبعی تک نہیں پہنچتی، اس وقت تک اس میں ارتقائی تغیرات آتے رہتے ہیں اور جب وہ ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی اپنے منتہائے کمال تک پہنچ جاتی ہے تو آخر عمر تک وہ اسی مرتبہ پر رہتی ہے اور اس میں کوئی اضافہ و ترقی نہیں ہوتی۔ اسی نہج پر اللہ تعالی نے نظام شریعت قائم کیا۔ شرائع اور احکام کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر ارتقائی منازل طے کرتا ہوا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر اپنے منتہائے کمال تک آپہنچا۔ اس طرح رسالت، نبوت اور شریعت کی جس قدر اصطلاحیں تھیں، وہ سب آپﷺ پر ختم ہو گئیں اور آپ کے بعد ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا۔
انبیاء سابقین علیہم السلام جن شریعتوں اور اسوہ ہائے زندگی کو لے کر آتے رہے، وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط نہ تھے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تجرد کی زندگی گزاری اور ازدواجی سیرت کے لئے ان کی زندگی میں کوئی نمونہ نہ تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شاہی زندگی گزاری اور فقر کے لئے ان کی زندگی میں کوئی اسوہ نہیں۔ اس طرح سابقہ شریعتوں میں سیاست اور عبادت کا الگ الگ نظام تھا۔ یہ سب جزوی شریعتیں تھیں، اس لئے ایک جامع اور کامل نبی کی ضرورت تھی، جس کی سیرت میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ہدایت ہو، قیامت تک پیش آنے والے حالات اور مسائل میں کوئی مسئلہ نہ ہو مگر اس نبی کی شریعت میں اس کے لئے رہنمائی موجود ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’آج میں نے مکمل کردیا ہے تمہارے لئے تمارا دین اور پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔۳)
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالی نے اس شریعت کو کامل اور مکمل کردیا اور کامل و مکمل ہونے کے یہی معنی ہیں کہ انسانی ضروریات کے لئے وحی کے ذریعہ جتنی ہدایات دی جاسکتی تھیں، وہ سب دی جاچکی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر وحی کا دروازہ کھلا چھوڑدیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دین ابھی کامل اور مکمل نہیں ہوا۔
پہلے زمانہ میں جب انبیاء کرام کے آنے کا سلسلہ جاری تھا، ایک نبی آتا اور بعض امور کے لئے ہدایت جاری کردیتا اور کچھ امور رہ جاتے اور پھر دوسرا نبی آتا اور بعض احکام جاری کرتا، لیکن ضابطہ اخلاق و عادات ادھورا ہی رہ جاتا۔ اس لئے ایک ایسے نبی کی ضرورت تھی، جس کے وجود سے ادھورے اخلاق پورے ہو جائیں اور ناتمام نظام مکمل ہو جائے، حتی کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دین و دنیا کا ایک ایسا کامل نظام پیش کیا، جس میں ایک عالم سے لے کر عابد تک، سپاہی سے لے کر سپہ سالار تک اور تاجر سے لے کر قاضی تک سب کے لئے ہدایت ہے۔ اگر تخت سلطنت پر بیٹھنے والا حاکم یہ فخر کرتا ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا تابع ہوں تو ایک کلہاڑا چلانے والا مزدور بھی سینہ تان کر کہہ سکتا ہے کہ میں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا پیروکار ہوں۔ یعنی انسانی اخلاق کے وہ تمام شعبے، جو آپﷺ کے آنے سے پہلے ناتمام تھے، آپ کے آنے سے تمام اور کامل ہو گئے۔ اسی لئے آپﷺ نے فرمایا ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ مکارم اخلاق کو پورا کردوں‘‘۔
پہلے نبیوں کی زندگی اور سیرت میں حیات انسانی کا کوئی حصہ رہ جاتا تھا تو اسے پورا کرنے کے لئے دوسرے نبی آتے تھے۔ اگر آپﷺ کی زندگی میں بھی کوئی خلا ہوتا تو اسے بھی پورا کرنے کے لئے بعد میں کوئی نبی آتا، لیکن آپ نے ایسی جامع اور کامل زندگی گزاری ہے کہ اس میں بعد میں آنے والوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اور اب اگر آپ کے بعد کوئی شخص کسی کی نبوت کو تجویز کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپﷺ کی سیرت کے تمام اور کامل ہونے پر ایمان نہیں رکھتا۔
پہلے انبیاء کرام بعض قوموں کے لئے مخصوص ہوتے تھے، جس قوم کے لئے وہ شریعت لے کر آتے اس کے سوا کوئی اور قوم اس ہدایت سے مستفید نہیں ہوسکتی تھی، لیکن رحمت خداوندی کا سیلاب تمام انسانوں کو اپنی آغوش میں لینا چاہتا تھا۔ اللہ کی ہدایت کا امڈتا ہوا دریا یہ چاہتا تھا کہ ایک ایسا نبی بھیجے، جس کی شریعت میں رنگ و نسل، خاندان اور قبیلہ اور زبان و بیان کی کوئی قید نہ ہو، جس کی تبلیغ کی تند و تیز موجوں کی راہ میں زمانہ اور زمانیات رکاوٹ نہ بن سکیں، جس کا پیغام زمانہ بعثت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے ہر انسان کے لئے ہدایت ہو۔ پس اللہ تعالی نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور فرمایا ’’قیامت تک کی نسلوں کو مخاطب کرکے کہہ دیجئے! میں تم تمام لوگوں کے لئے اللہ کا رسول بن کر آیاہوں‘‘ (سورۃ الاعراف۔۱۵۸) اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی فرقہ کسی شخص کی نبوت کو جائز رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافی نہیں سمجھتا اور ’’وماارسلنٰک الا کافۃ للناس‘‘ پر ایمان نہیں رکھتا۔
٭٭٭