اب دستور سے کھلواڑکی سازش

میرے ہی چراغوں کو لئے ہاتھ میں اپنے
میرے ہی چراغوں کو ہوا ڈھونڈ رہی ہے
اب دستور سے کھلواڑکی سازش
مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم خطرناک حد تک بلند ہوگئے ہیں۔ یہ طاقتیں اب اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ خود مرکزی حکومت ان طاقتوں کو اپنے سیاسی استحکام اور بقا کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ حکومت خود ان تنظیموں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے ۔ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک سرکاری اشتہار میں جس طرح دستور کے دو الفاظ ’سوشلسٹ اور سکیولر ‘ کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا اگر وہ غلطی سے ہوا تو اس کو درگذر کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا تاثر تقویت حاصل کرتا جا رہا ہے کہ ایسا سب کچھ ایک منصوبے کے ساتھ سوچے سمجھے انداز میں کیا گیا ہے ۔ حکومت کے اشتہار کے بعد شیوسینا نے ایک مطالبہ کردیا کہ سکیولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ کو دستور سے حذف کردیا جائے اور سرکاری اشتہارات میں ہمیشہ کیلئے ان الفاظ کا استعمال ترک کردیا جائے ۔ شیوسینا اپنی تخریبی اور فرقہ پرست ذہنیت کیلئے شہرت رکھتی ہے ۔ اس کا مطالبہ انتہائی متعصب ذہنیت کا نتیجہ ہے ۔ شیوسینا کے خلاف کسی طرح کا کارروائی کرتے ہوئے اس کو اپنی متعصب ذہنیت سے روکنے کی بجائے مرکزی حکومت نے اس مطالبہ پر مباحث کی تجویز پیش کرتے ہوئے اپنے عزائم کو آشکار کردیا ہے ۔ جہاں شیوسینا کے مطالبہ پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقیدیں ہو رہی تھیں وہیں اب مرکزی وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی روی شنکر پرساد نے یہ بیان دیدیا کہ دستور سے ان الفاظ کو حذف کرنے کے مطالبہ پر مباحث ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دو الفاظ پر مباحث کروانے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور یہ پتہ چل جائے گا کہ قوم کیا چاہتی ہے ۔ یہ سب کچھ سیدھے انداز میں حکومت کے عزائم کو ظاہر کرنے کی کوشش تھی اور یہ تاثر عمدا دیا گیا کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ دستور میں شامل ان دو الفاظ کو ہمیشہ کیلئے دستور ہند سے حذف کردیا جائے ۔ مباحث کروانے کی تجویز ہی فرقہ پرستوں کو کمر کس لینے اور ان الفاظ کو دستور سے حذف کرنے کیلئے میدان میںآجانے کا اشارہ ہے اور اس طرح کی کوششیں خطرناک کہی جاسکتی ہیں۔
شیوسینا ہمیشہ ہی متعصب ذہنیت سے کام لیتی رہی ہے ۔ اس کے سابق سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے ہوں یا موجودہ صدر ادھو ٹھاکرے ہوں سبھی نے انتہا درجہ کی فرقہ پرستی کا ایک سے زائد بار مظاہرہ کیا ہے ۔ وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے رہے ہیں۔ ان کی ذہنیت ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی ہے ۔ ایسی ذہنیت والے اگر کوئی مطالبہ کرتے بھی ہیں تو اس کو نظر انداز کرنے یا پھر ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اگر حکومت خود اس مطالبہ پر مباحث کی تجویز پیش کرتی ہے تو یہ خود حکومت کی فرقہ پرستانہ ‘ متعصب اور ناپاک ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے ملک کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہوسکتا ہے۔ مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جس طرح سے منظم انداز میں ملک کے بنیادی ڈھانچہ کو بدلنے اور اسے کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں وہی قابل مذمت تھیں اور ان سے گریز کی ضرورت ہے ۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ملک کے دستور میں شامل دو اہم الفاظ ہی کو بدلنے کا مطالبہ کیا جانا اور اس پر مباحث کیلئے حکومت کی جانب سے راہ دکھانا ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی خطرناک کہا جاسکتا ہے ۔ اس سے فرقہ پرستوں کو یہ واضح پیام دیا گیا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے اگر اس مطالبہ میں شدت پیدا کی جائے ۔ گویا حکومت نے فرقہ پرستوں کے آگے چارہ ڈال دیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو ہوا دیں اور جب بات شدت اختیار کرلے گی تو حکومت کیلئے مباحث کروانے کا جواز پیدا ہوجائیگا ۔ حکومت نے ایک وزیر کے بیان کے ذریعہ اپنی ذہنیت کو آشکار کردیا ہے ۔
فرقہ پرست تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں اور اب حکومت کی جانب سے بھی راست اور بالواسطہ انداز میں اسے ہوا دی جا رہی ہے تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ ہی ہے ۔ ایسے میں تمام صحیح الخیال جماعتوں اور سکیولر و سوشلسٹ طاقتوں کو بھی کمر کس لینی چاہئے اور انہیں میدان میں آنا چاہئے کہ ان طاقتوں کے عزائم کو تکمیل کا موقع نہیں ملنے پائے ۔ سکیولر ازم اور سوشلزم میں یقین رکھنے والے اداروں ‘ سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ایک جٹ ہوکر متحد ہوکر اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے عناصر اور ان کے ناپاک عزائم کے خلاف سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ اگر ان طاقتوں کو ابتداء ہی میں لگام نہیں ڈالا گیا تو یہ بے لگام ہوکر ملک میں تباہی مچانے سے گریز نہیں کرینگے اور اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا ۔