ابو الانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام

محمد بدیع الدین نقشبندی

آپ کا اسم مبارک ’’ابراہیم‘‘ لقب ابو الفیضان (بڑے مہمان نواز)، خطاب خلیل اللہ، کنیت ابومحمد اور ابو الانبیاء ہے۔ والد کا نام تارخ بن تاخور اور آپ کے چچا کا نام آزر تھا۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی ۲۵ سورتوں فرمایا ہے۔ سورۃ العنکبوت میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’ہم نے نبوت اور کتاب کو ابراہیم ہی کی ذریت میں کردیا‘‘۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چار نکاح کئے، پہلی بی بی حضرت سارہ سے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسری بیوی حضرت ہاجرہ سے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام، تیسری بی بی سے چھ لڑکے اور آخری بیوی سے پانچ لڑکے، اس طرح آپ کے جملہ تیرہ لڑکے ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نسل آدم کے تیسرے جدامجد ہیں۔ امت محمدیہ کو اللہ تعالی نے تلقین فرمائی کہ ’’تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء کی زندگی میں اسوۂ حسنہ موجود ہے‘‘۔ (سورۃ الممتحنہ) حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی حیات طیبہ تاریخ انسانی کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ آپ کی مقدس زندگی یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے لئے یکساں مفید ہے۔ آپ کی طویل عمر شریف شرک و بت پرستی اور بدعات کے خلاف کامیاب جہاد ہے۔ آپ نے دعوت حق کا کام اپنے گھر سے شروع کیا، تاہم آپ کی قوم نے آپ کی دعوت کو رد کردیا۔ ایک خاص موقع پر جب کہ اہل شہر نے ایک تقریب منانے کی غرض سے جنگل کا رخ کیا تو آپ نے بت خانہ میں جاکر سوائے ایک بڑے بت کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اورایک تیشہ بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ واپسی کے بعد قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا کہ ’’یہ حرکت کس نے کی ہے؟‘‘۔ آپ نے جواب دیا کہ اس بڑے بت سے پوچھ لو، شاید اسی نے کیا ہو۔ پھر آپ ظالم بادشاہ کے دربار میں طلب کئے گئے، جہاں آپ کا مکالمہ بادشاہ سے ہوا۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا اس کو جو ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا۔ وہ غرور میں تھا کہ اللہ نے اسے سلطنت بخشی تھی۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو مشرق سے سورج کو نکالتا ہے، تو اس کو مغرب سے نکال دے۔ کافر لاجواب اور مبہوت ہو گیا اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔ (سورۃ البقرہ)

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باطل خداؤں کو تباہ کردیا اور دلائل میں بھی ان پر غالب آئے تو قوم نے آگ میں جلا ڈالنے کی سزا تجویز کی۔ ایک بہت ہی بھیانک آگ دہکائی گئی، شیطان کے مشورہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رسیوں سے باندھ کر منجنیق کے ذریعہ آگ میں جب جھونکا جا رہا تھا تو کائنات کی تمام مخلوقات غم و اندوہ سے چلا اٹھیں، سوائے سرکش جن و انس کے۔ فرشتوں نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ ’’اگر اجازت دی جائے تو ہم ابراہیم علیہ السلام کی مدد کریں‘‘۔ اللہ تعالی نے فرمایا ’’اگر اہیم (علیہ السلام) تمہاری مدد قبول کریں تو ضرور مدد کرو‘‘۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہوا اور بارش کے فرشتوں کے ہمراہ آکر مدد کی پیشکش کی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مدد کو رد کردیا اور فرمایا ’’میرا اللہ مجھے کافی ہے اور وہی بہتر کارساز ہے‘‘۔ اس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ ’’اللہ ہی سے مدد کی درخواست کیجئے‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’اللہ تعالی میرے حال سے واقف ہے، سوال کے بغیر ہی وہ میرے لئے کافی ہے‘‘۔ دشمنوں نے جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ’’اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بابل سے مصر کی طرف ہجرت کی پھر فلسطین میں آباد ہوئے۔ اسی دوران اللہ تعالی نے ایک امتحان اور لیا اور حکم ہوا کہ اپنی زوجہ اور شیر خوار صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سرزمین حرم پر چھوڑدو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعاء فرمائی کہ اے اللہ میں اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے جا رہا ہوں، انھیں اپنی بندگی کرنے والا بنا اور انھیں رزق عطا فرما کہ یہ تیرا شکر ادا کریں۔ اسی طرح آپ کی ایک اور بڑی آزمائش اکلوتے بیٹے کی قربانی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور جب وہ اسماعیل (علیہ السلام) ان کے ساتھ کام کے قابل ہو گئے تو کہا ’’اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ تمہاری رائے کیا ہے۔ کہا کہ اے میرے والد! آپ وہ کیجئے جس کا رب نے حکم دیا ہے، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔