آہ … پھر ایک اور اللہ کا گھر ویران نظر آیا

کرمن گھاٹ میں کوڑا دان بن چکی عالمگیری مسجد سے وقف بورڈ بھی لا علم
حیدرآباد ۔ 9 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : غیر آباد مساجد کا ایک سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ اس سے قبل روزنامہ سیاست کے ذریعہ غیر آباد مساجد کی ایک طویل ترین فہرست قارئین کی خدمت میں پیش کی جاچکی ہے ۔ تاہم روز بروز ایک نیا انکشاف ہوتا ہے کہ فلاں علاقہ میں بھی ایک مسجد غیر آباد ہے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اخبار سیاست کے ذریعہ عوام کے اندر بھی غیر آباد مساجد کو منظر عام پر لانے کا احساس جاگا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اے سی میکانک ایک نوجوان نے ہم کو اطلاع دی کہ کرمن گھاٹ جیلال گوڑہ کالونی میں اس نے دیکھا کہ وہاں ایک قدیم مسجد بالکل ویران پڑی ہے ۔ جذبہ ملی اور دینی حمیت نے ہمارے اس برادر ملت کو جھنجوڑ کر ر کھ دیا اور اس نے ہم کو مکمل تفصیلات سے واقف کروایا ۔ ہم دوسرے ہی دن اس مسجد کا مشاہدہ کرنے پہونچ گئے ۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ کرمن گھاٹ مین روڈ سے کچھ فاصلے پر جیلال گوڑہ کالونی میں ایک قدیم تاریخی مسجد واقع ہے ۔ جو اپنی زبوں حالی کی مثال بنی مسلمانوں کو افسوس و ندامت کا پیغام دیتی نظر آئی ۔ وہاں اطراف میں غیر مسلموں کے مکانات ہیں ۔ مسجد کے صحن میں ٹینس کورٹ بنایا گیا ہے ۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اطراف کے مکانات مسجد کی اراضی پر تعمیر کئے گئے ہیں ۔ لیکن ہم اس ضمن میں غیروں کو قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ ایک ویران و غیر آباد مسجد جس کا کوئی پرسان حال ہی نہ ہو تو وہاں کی کھولی زمین پر مکانات کا تعمیر کرلیا جانا کوئی نئی بات نہیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ غیر قوموں میں جہاں بھی اپنے چند مکان بساتے ہیں وہاں فوری اپنی عبادت گاہ بھی بنالیتے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنی عبادت گاہیں ویران کرتے چلے جارہے ہیں ۔ مسجد کا علم تو بے چارے اس اے سی مکانیک کی معرفت ہی سے ہوسکا جس کے بعد ہم نے وقف گزٹ میں جلال گوڑہ کے مساجد کا ریکارڈ تلاش کیا حیرت اس بات پر ہے کہ گزٹ میں مکمل ریکارڈ موجود ہے وہ اس طرح ہے :
RR/177 Mandaz Saroornagar, Village Jillal Guda, Gaz.No.Date (6-A) 9-2-1989, Gaz.No.2821
وقف بورڈ کے دفتر حج ہاوز سے تقریبا 15 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ عالمگیر غیر آباد مسجد ہے اور گزٹ میں تفصیلات ہونے کے باوجود بورڈ سے مسجد کے بارے میں بات کرنے پر لا علمی کا اظہار کیا ۔ 3 کانوں کی یہ مسجد جس کو اطراف واکناف کے رہنے والے افراد کچرے کی کنڈی کے طور پر استعمال کررہے ہیں جو نہایت افسوسناک ہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ایک تجربہ کار مسلم عہدیدار کو ہم نے اس مسجد کا مشاہدہ کروایا تو انہوں نے کہا کہ یہ مسجد عہد عالمگیری کی طرز تعمیر معلوم ہوتی ہے کیوں کہ عالمگیری مساجد اونچے چبوترے پر بلند کمانوں کے ساتھ تعمیر کی جاتی تھیں ۔ بہر حال یہ مسجد عہد عالمگیری کی ہو یا عہد قطب شاہی یا کوئی اور عہد کی یہاں بات کسی مخصوص عہد حکومت کی نہیں بلکہ اللہ کے گھر (مسجد ) کی ہے مساجد کی حفاظت و صیانت اور اس کو آباد رکھنے کی ذمہ داری عمومی طور پر مقامی قرب و جوار میں بسنے والے مسلمانوں کی ہوتی ہے جب کہ بالخصوص یہ ذمہ داری وقف بورڈ کی ہے ۔ اس ضمن میں مقامی ہندوؤں سے بھی ہم نے گفتگو کی کسی کو نہ ہی اعتراض ہے اور نہ ہی کوئی دشواری ۔ لہذا اب سب سے پہلے ذمہ داری وقف بورڈ عہدیداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بعجلت ممکنہ اس مسجد کا دورہ کریں اور فوری وہاں سے کچرا اور گندگی صاف کروائیں اور اس کے ساتھ ہی مسجد کی حصار بندی و آہک پاشی کرتے ہوئے نمازوں کا اہتمام کروائیں ۔ نیز مسجد کا از سر نو باضابطہ اپنے ریکارڈ میں اندراج بھی کروائیں ۔ علاوہ ازیں مقامی پولیس کو اطلاع دے کر اس بات کو بھی فوری یقینی بنائیں کہ اب مزید وہاں کوئی کوڑا کرکٹ وغیرہ نہ پھینکا جائے ۔ انجانے میں اللہ کے اس گھر سے جو لاپرواہی برتی گئی وہ امید ہے کہ مولائے کریم درگذر فرمادے گا ۔ تاہم اس میں کسی قسم کی تاخیر و تساہل یقینا باعث گرفت ہوگی ۔۔ abuaimalazad@gmail.com