خانوادہ حضرت مسکین شاہ صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ (مسجد الماس علی آباد) کے چشم و چراغ، نقشبندی مجددی سلسلہ کے پیر کامل، اسلاف کا نمونہ، بزرگوں کی نشانی حضرت غلام خواجہ بہاء الدین صدیقی المعروف تسکین شاہ ثانی تقریباً ۳۸سال اپنے آباء و اجداد کے منصب ارشاد و ہدایت پر فائز و متمکن رہ کر سجادگی و جانشینی کے فرائض بزرگوں کے طریقہ کے مطابق انجام دیتے ہوئے ۱۰؍ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ کی اولین ساعتوں میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ حضرت تسکین شاہ ثانی علیہ الرحمہ کا وصال خصوصاً وابستگان سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے اور عمومی طورپر اہلیان دکن کے لئے ایک عظیم خداترس بزرگ کے وجود سے محرومی ہے۔
حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق سلسلہ کا فیض اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک کہ سلسلہ اپنی اصلیت پر باقی رہتا ہے اور نقشبندی سلسلہ کا کمال یہی رہا کہ اس میں اتباع سنت، شرعی احکام کی تعمیل، بدعتوں سے اجتناب، عزیمت پر عمل کو ترجیح رہی۔ وجد و حال، رقص و سرود اور مراسم کو فرائض و واجبات کا درجہ کبھی نہ رہا، بطور خاص نقشبندی سلسلہ کی خانقاہیں نام و نمود سے دور، شہرت سے لاتعلق، نہایت خاموشی اور استقامت کے ساتھ معمولات نبوی پر کاربند رہتے ہوئے سلسلہ کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ حالیہ عرصہ میں اکابر نقشبندی سلسلہ کی یکے بعد دیگرے وفات حسرت آیات خانقاہی نظام کے لئے ایک بڑا رخنہ ہے۔
ہندوستان میں سب سے پہلے چشتیہ سلسلہ قائم ہوا، بعد ازاں سہروردیہ سلسلہ فروغ پایا۔ یہ دونوں سلاسل ہندوستان میں قدیم ہیں۔ قادری اور نقشبندی سلاسل بعد میں آئے۔ سلسلہ نقشبندیہ تو جلال الدین اکبر کے عہد میں حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے جاری ہوا۔ اس دور میں اسلام اور شریعت اسلامی کی حفاظت ایک سنگین مسئلہ تھا۔ اس وقت احیائے دین اور اقامت شریعت وقت کی شدید ترین ضرورت تھی۔ عہد اکبری میں بعض صوفیہ خام و ملحدان بے سرانجام کی وحدت الوجود کی غلط تشریح و تعبیر، غیر قوم سے صلح پسندی، دربار شاہی سے بدعت و تجدد کی خبریں ہندوستان میں اسلام کے مستقبل کے لئے پرخطر تھی۔ اس وقت حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کا احیائے دین کا طریقہ کار وقت کی ضرورت کے لئے کافی موزوں تھا۔
نقشبندی سلسلہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم خلیفہ قیوم زمانی، محبوب سبحانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے اقطاع عالم میں فروغ پایا۔ اکبر اعظم کی سلطنت کا اثر سارے عالم اسلام پر تھا، اس کی حکومت سے سارے عالم اسلام پر اس کے اثرات مرتب ہوتے۔ بناء بریں حضرت مجدد علیہ الرحمہ نے ہندوستانی ماحول میں عین اسلام کی خدمت کے لئے نقشبندی سلسلہ کو فروغ دیا۔ آپ کو تمام سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل رہی، بلکہ آپ کو حضرت پیران پیر غوث اعظم دستگیر قدس سرہ، ہندالولی حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ سے خصوصی روحانی فیوض و برکات حاصل تھی۔ ہر سلسلہ کی اپنی خصوصیات ہیں اور تمام سلاسل کا مقصد ایک ہی ہے۔ آپ نے ہندوستان میں سلسلہ نقشبندیہ کو فروغ دیا، جس میں نہ چلہ کشی ہے، نہی مشکل ریاضتیں، اتباع سنت سنیہ اور اجتناب بدعت نامرضیہ بدرجہ کمال ہے۔ صحابہ کرام کی طرز معاشرت معیار و مشروط ہے۔ کمالات ولایت کے علاوہ کمالا نبوت کی تعلیم ہے، نہ سماع بالمزامیر ہے، نہ قبور پر روشنی، نہ ہجوم عورات و مستورات، نہ سجدہ تعظیمی، نہ سر جھکانا، نہ بوسہ دینا، نہ پیروں کی قدم بوسی کا حکم، بلکہ جسم شریعت کے پابند اور قلب بزرگوں کے قدموں پر اور سریعت پر عمل کرنا ہی عین سلوک۔ ایک فرض کو اس کے آداب و سنن کے ساتھ بجالانا نفس پر سالہا سال ریاضتوں سے زیادہ گراں، روحانی تمام تر ترقی و عروج کی بنیاد اتباع کامل پر۔ یہ سلسلہ عالیہ مسلسل فروغ پاتا رہا، اقطاع عالم میں پھیلتا رہا۔ بعد کے ادوار میں حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و جانشین حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے غیر معمولی خانقاہی تعلیم و تربیت کا نظام قائم فرمایا۔ آپ کی خانقاہ سے چار دانگ عالم میں فیض پہنچا اور آپ نے اپنے مریدین کی تربیت فرماکر مختلف ممالک و علاقہ جات کو روانہ فرمایا۔ آپ کے خلفاء کے دست حق پرست پر ہزارہا وقت کے جید علماء و فقہاء نے بیعت کی۔ حضرت غلام علی شاہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں فیض پانے والے آپ کے خلفاء میں ایک اسم گرامی حضرت شاہ سعد اللہ صاحب نقشبندی مجددی کا ہے، جو دکن میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے بانی و امام ہیں۔
صاحب تذکرہ حضرت تسکین شاہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت شاہ سعد اللہ قدس سرہ حرمین شریفین کی زیارت کے بعد حسب الحکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم براہ مدراس و کرنول رونق بخش بلدۂ حیدرآباد ہوئے اور آپ نے مسجد الماس اندرون دروازہ علی آباد میں کامل دو سال قیام فرمایا، جہاں حضرت مسکین شاہ رحمۃ اللہ علیہ داخل سلسلہ ہوئے اور تقریباً تیس سال تک اپنے پیر و مرشد کی صحبت و تربیت میں رہے۔ حضرت شاہ سعد اللہ صاحب کو دکن کے علماء و مشائخ میں مرکزیت حاصل تھی اور آپ نے بادشاہ وقت کے بالمقابل نظریہ شیعت کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور یہی مرکزیت آپ کے مرید و خلیفہ حضرت مسکین شاہ صاحب بھی حاصل رہی۔ سوا لاکھ سے زائد افراد نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کیا۔ آصف سادس غفران مکان میر محبوب علی خاں اور دیگر شاہی امراء و خواتین حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ حضرت شاہ سعد اللہ نقشبندی کے دوسرے مشہور خلیفہ حضرت پیر بخاری شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جو حضرت ابوالحسنات محدث دکن سید عبد اللہ شاہ نقشبندی کے پیر و مرشد ہیں۔ پولیس ایکشن کے بعد اہل اسلام پر تباہی آئی، خانقاہی نظام حد درجہ متاثر ہوا، خانقاہی نظام کو پھر ایک بار حضرت محدث دکن کے وجود سے تقویت ملی اور آپ کو مرکزیت حاصل رہی۔ حضرت محدث دکن کے خانوادہ نے بڑی آب و تاب کے ساتھ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی خدمت انجام دی۔ اس فقیر کو اسی در کی غلامی کا شرف حاصل ہے۔ اس عاجز کا سارا ننیہال حضرت مسکین شاہ قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادہ سے وابستہ رہا۔ میری والدہ حضرت تسکین شاہ کے والد ماجد حضرت یسین شاہ صاحب کی مریدہ ہیں۔ میری بڑی خالہ اور بڑے ماموں کو حضرت تسکین شاہ ثانی کے دادا حضرت تحسین شاہ صاحب سے بیعت و غلامی کا شرف حاصل تھا۔ بچپن سے ہم نے اپنے خاندان کے دکھ سکھ، خوشی و غم کی ہر محفل و مجلس میں کسی بزرگ کو دیکھا ہے تو وہ حضرت تسکین شاہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی تھی۔ ہمارے خاندان میں عقیقہ ہو یا بسم اللہ خوانی، شادی ہو یا جمعگی، زیارت ہو یا برسی، دہم ہو یا چہلم، ہر محفل میں حضرت تسکین شاہ ثانی کا وجود ناگزیر تھا۔ بچپن سے ہمارے ذہنوں میں کسی اللہ والے یا بزرگ کا نقشہ قائم ہوا تو وہ حضرت تسکین شاہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا نورانی چہرہ تھا۔