آہستہ آہستہ سعودی عرب ’خواتین کی سلطنت ‘ کے راستے پر گامزن

بیروت( لبنان)۔ ایک طویل عرصہ سے سعودی عرب کاشمار خواتین کے لئے دنیا کے سب سے زیادہ تحدیدات والے ملک میں کیاجاتا ہے‘ انہیں اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں تھی‘ زیادہ ملازمتیں ان کے پاس نہیں تھیں‘ وہ برسرعام اپنے بال لہرا کر نہیں گھوم سکتی تھیں اور نہ ہی ڈرائیوینگ کرنے کا انہیں اختیار حاصل تھا۔ یہ اب تبدیل ہوگیاہے۔حالیہ دنوں میں مملکت کے نوجوان اور اصل حکمران ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے لئے گئے سلسلہ وار فیصلوں سعودی خواتین کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لادی ہیں۔انہیں بہت جلد عوامی اسٹیڈیم میں فٹبال میاچوں کا مشاہدہ کرنے کی بھی اجاز ت مل جائے گی۔

باوقار عہدوں کے لئے ان کے نام پیش کئے جارہے ہیں۔ ماہ جون میں انہیں کار چلانے کی اجازت مل گئی ‘ یہاں تک کہ وہ سیکل بھی اب چلاسکیں گی ایساحکومت کا کہنا ہے۔ہوسکتا ہے خواتین کو ٹریفک پولیس میں بھی شامل کیاجائے گا۔مگر اس فیصلے کا اثر مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد پر کس طرح کا ہوگا‘ جس میں انے رہن سہن او رعمر ‘ ان کا اپنے عقائد اور اپنے مرد رشتہ داروں سے اختیار حاصل کرنے کو بہت سارے لوگ مذہبی نظریات سے جوڑنے کاکام بھی کرتے ہیں۔جہاں پر مملکت میں سخت جنسی قوانین جوکہ قدمت پرست اسلام کا حصہ سمجھا جاتے ہیں‘ جو مختلف زایوں سے حاوی ہے ۔اور جنتی تیزی کے ساتھ سرکاری فیصلے کو عورتوں کی آزادزندگی کے لئے نافذ کرنے کاکام کیاجارہا ہے ‘ یہ کلچر وہیں پر سست رفتاری سے تبدیل ہورہاہے۔

سعودی عرب کے زیادہ تر عوامی مقاما ت مردوں ور عورتوں کو ایک دوسر ے سے الگ کرنے کی مناسبت سے تیار کئے گئے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں فیملی کے لئے علیحدہ باب داخلہ بنایاگیا ہے جس کا مطالب ہے عورتیں اور لڑکیاں کو لئے یہ راستہ ہوگا۔سعودی عرب کی درالحکومت ریاض کی ایک مال میں اس کا ایک مکمل فلور خواتین کے لئے رکھا گیاہے جس کو ’’ دی لیڈیز کنگ ڈم‘‘ کا نام دیاگیا ہے ۔ قدمت پرست ماحول میں مرد بہت کم ہی ان عورتوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں جو ان کی ماں‘ بیٹی یا بہن نہیں ہوتے ہیں۔ایک بار نئے قوانین کو اطلاق عمل میں اجاتا ہے تو اس کے بعد اس طرح کی سختی باقی نہیں رہے گی‘ اس تبدیلی کی شروعات پہلے ہی ہوچکی ہے۔

سعودی میں نوجوانوں کی بڑی آبادی ہے ۔ شہریوں کی 22ملین آبادی میں دوتہائی نوجوان 30سال سے کم عمر کے ہیں۔ نوجوان نسل دنیا کے مقابلے میں بے مثال صلاحیتوں کی حامل بھی ہے۔سینکڑوں ہزاروں بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اور دیگر اسٹیڈیز کے ساتھ ساتھ سوشیل میڈیا اور سٹیلائٹ ٹی وی بھی گھروں میں لازمی طور سے استعمال کیاجاتا ہے ۔

کچھ نوجوان عورتیں ابایا سیاہ اور لمبا گاؤن جس عورت کی پہچان بھی ہے کو فیشن کا انداز میں استعمال کررہے ہیں۔کنگ فیصل کے دور سے ہی خواتین کے موقف میں تبدیلی کی شروعات عمل میںآچکی تھی ۔ انہو ں نے 1960کے دہے میں لڑکیوں کے لئے پبلک ایجوکیشن کو متعارف کروایاتھا جس کے بعد انہیں قدمت پسند لوگوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

انہوں نے ناقدین کو یہ کہتے ہوئے ٹھنڈا کردیاتھاکہ ’’ یہ لازمی نہیں ہے‘‘اور کچھ سالوں بعد نہایت شدت پسند سعودی شہریوں میں بھی اپنی لڑکیو ں کو اسکول بھیجنا شروع کردیاتھا۔کنگ عبداللہ کے دور میں جن کا 2015میں انتقال ہوا ‘ عورتوں کو پہلی مرتبہ سیلس کلرک اور سپر مارکٹ چیکٹ آؤٹ لائنس میں کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔مگر 32سال کے پرنس محمد کے نگرانی میں عورتوں کے لئے تبدیلیوں نے ایک نئی رفتار پکڑی۔ سعودی کے نوجوان ان ہنگامی تبدیلیوں سے کافی جذباتی ہیں اور وہ ولیعہد کو ’’ ہیرو‘ بہادر‘ اور نوجوان چیمپئن‘‘ قراردے رہے ہیں۔