آنکھوں میں ہے کچھ ، دل میں ہے کچھ ، ہونٹوں پہ کچھ ہے

نیو انڈیا 2022 یا ہندو راشٹر کا ایجنڈہ
دستوری عہدوں سے ہندوتوا کے نعرے … مدارس کو دھمکانے کی کوشش

رشیدالدین
نیو انڈیا 2022 ء کا مطلب کہیں ہندو راشٹر تو نہیں؟ ہندوستان کی آزادی کے 70 سال کی تکمیل پر 2022 ء میں نئے ہندوستان کی تشکیل کا نریندر مودی نے نعرہ دیا ہے۔ ویسے بھی مودی سرکار کو نعروں کی سرکار کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ہر اہم عہدہ کیلئے نریندر مودی نے کچھ نہ کچھ نعرہ ضرور لگایا ۔ کسی بھی وزیراعظم کے پاس خصوصی مشیر ہوتے ہیں جن کا کام عوامی بھلائی کے سلسلہ میں رہنمائی کرنا ہوتاہے لیکن نریندر مودی کے پاس نعروں اور تقاریر کے مشیر دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر تقریر میں نئے نعرے اور ڈائیلاگ بازی نظر آتی ہے ۔ نعروں اور بولیوں سے حکومت چلائی نہیں جاسکتی۔ نیو انڈیا کا نعرہ ایسے وقت لگایا گیا جب ملک کے تمام اہم دستوری عہدوں پر بی جے پی کا قبضہ ہوچکا ہے ۔ عدلیہ بھی چونکہ اسی سماج کا حصہ ہے لہذا ججس کی بولی بھی بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ عدالتی فیصلوں میں مخصوص بولیوں کا استعمال یقیناً تشویش کا باعث ہے۔ نریندر مودی نیو انڈیا کا نعرہ لگارہے ہیں جبکہ امیت شاہ نے رامناتھ کووند کے صدر کی حیثیت سے انتخاب کے بعد کہا تھا کہ بی جے پی ایجنڈہ پر عمل آوری کا وقت اب شروع ہوا ہے۔ مودی اور امیت شاہ محض نام اور شخصیتیں الگ ہیں لیکن نظریات ایک ہی ہیں۔ دونوں کی سوچ ، فکر حتیٰ کہ کارکردگی کا انداز بھی ایک ہے۔ ایسے میں کس کے نعرہ پہ یقین کیا جائے، چونکہ دونوں کا نشانہ ہندوتوا ایجنڈہ کا نفاذ اور منزل ہندو راشٹر ہے، لہذا ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ نیو انڈیا کے نعرے درپردہ عزائم کچھ اور ہی ہیں۔ صدر جمہوریہ اور وزیراعظم کے یوم آزادی خطاب سے بھی اس کے اشارے ملتے ہیں۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ کا حلف لیتے ہی اپنے پہلے خطاب اور پھر یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب میں صدر جمہوریہ نے مخصوص نظریہ کی ترجمانی کی۔ دونوں مواقع پر رامناتھ کووند نے جئے ہند کے نعرہ پر تقریر نہیں کی بلکہ وندے ماترم کا بھی نعرہ لگایا۔ کووند ملک کے دستوری سربراہ ہیں ، کم از کم انہیں اس کا لحاظ رکھنا چاہئے تھا کیونکہ دستور میں وندے ماترم کو کہیں بھی لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔ جب دستوری سربراہ ہی یہ نعرہ لگائے تو اس سے عوام میں کیا پیام جائے گا۔ وزیراعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سنگھ پرچارک کی طرح نعرہ بازی کی۔ مودی بار بار 125 کروڑ ہندوستانیوں کا حوالہ دیتے ہیں لیکن تقریر کے دوران بھول جاتے ہیں کہ وہ ساری قوم سے مخاطب ہیں۔ وہ کسی مخصوص مذہب ، فرقہ یا علاقہ کے وزیراعظم نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کے وزیراعظم ہیں لیکن لال قلعہ سے متنازعہ نعروںکے ذریعہ انہوں نے ایسے مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات کو مجروح کیا جن کے مذہبی عقیدہ کے اعتبار سے یہ نعرے نہیں لگائے جاسکتے۔ وزیراعظم نے 70 سال کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے تین مرتبہ جئے ہند کا نعرہ لگانے کے بجائے بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم کے نعرہ کو عوام سے دہرایا۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی لال قلعہ سے اس طرح کے متنازعہ نعرے نہیں لگائے تھے۔ مخصوص انداز کے مذہبی نعرے لگاکر مودی نے عہدہ کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ وزیراعظم کے عہدہ کیلئے یہ شایان شان نہیںکہ وہ دیگر مذاہب کے جذبات کا احترام نہ کریں۔ کرسی پر بیٹھنے سے قبل دستور کی پاسداری کا حلف لیا جاتا ہے لیکن بعد میں دستور کے بجائے من مانی پر اتر جاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر وزیراعظم نے لال قلعہ سے خطاب کے آخر میں تین مرتبہ جئے ہند کا نعرہ لگایا لیکن ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والے ابھی سے اپنے نظریات اور نعرے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کسی انتخابی جلسہ، بی جے پی کی میٹنگ یا ناگپور سبھا سے مخاطب نہیں تھے بلکہ جشن آزادی پر قوم سے خطاب کر رہے تھے۔ ووٹ بینک سیاست کیلئے دوسرے مقامات اور اسٹیج ہوسکتے ہیں لیکن لال قلعہ کو اس کیلئے استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔ یوں بھی گزشتہ تین برسوں میں مودی کا رول وزیراعظم کی حیثیت سے کم اور پرچارک کی حیثیت سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے ۔ یہ وہی نعرے ہیں جن کی ادائیگی کیلئے مسلمانوں پر دباؤ بنایا جارہا ہے۔ سنگھ پریوار کے عناصر نے کئی علاقوں میں نعرے لگانے سے انکار پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ۔

علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ متنازعہ نعرے شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہے ، لہذا انہیں ادا نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے دستوری عہدہ پر فائز افراد جب ایسے نعرے لگائیں تو نیو انڈیا 2022 ء کا ویژن ہندو راشٹر نہیں تو کیا ہوگا۔ ترقی تو محض بہانہ ہے ، مسلمان اصل نشانہ ہے۔ امیت شاہ نے جس ایجنڈہ کی بات کہی تھی ، یہ شاید اسی کا آغاز ہے۔ اہم دستوری عہدوں پر قبضہ جمانے کے بعد سنگھ پریوار کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ آر ایس ایس سر سنچالک موہن بھاگوت نے حکام کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیرالا کے ایک اسکول میں قومی پرچم لہرایا۔ جو لوگ اپنے ناگپور ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم لہرانے تیار نہیں وہ دوسروں کی حب الوطنی کا امتحان لینے نکل پڑے ہیں۔ تلنگانہ کے نظام آباد ضلع میں ایک مسلم پرنسپل کو جوتے پہن کر پرچم لہرانے پر زعفرانی پریگیڈ نے نشانہ بنایا جبکہ وزیراعظم سے لیکر چیف منسٹرس اور عوامی نمائندوں اور موہن بھاگوت کے جوتے پہن کر پرچم کشائی کرنے کی تصاویر وائرل ہوچکی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں مختلف عنوانات کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنانے والوں نے کیا کسر باقی رکھی تھی جو 2022 ء تک مکمل کی جائے گی ۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی۔ مذہبی تشخص ، زبان ، تہذیب اور ثقافت کو نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ تاریخ کو مسخ کردیا گیا۔ 2022 ء کے ایجنڈہ میں رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور مسلمانوں کے عائیلی مسائل میں مداخلت جیسے امور شامل ہوسکتے ہیں ۔ ملک کی ترقی سے انکار کس کو ہے لیکن ترقی کے نام پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک خفیہ ایجنڈہ کا اشارہ ہے ۔ مودی حکومت کی جانب سے نیو انڈیا 2022ء کا نعرہ اس لئے بھی باعث حیرت ہے کہ حکومت کی میعاد 2019 ء میں ختم ہوگی۔ پھر مودی کس طرح آگے کا ایجنڈہ طئے کر رہے ہیں۔ 2019 ء میں دوبارہ برسر اقتدار لانا یا نہیں عوام فیصلہ کریں گے لیکن میعاد سے بڑھ کر مودی کے عزائم شائد آر ایس ایس کے اعلان کی تائید میں ہیں۔ آر ایس ایس نے اپنے قیام کے 100 سال کی تکمیل پر ہندو راشٹر کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے اور 100 سال 2025 ء کو مکمل ہوں گے اور مودی 2022 ء کے ایجنڈہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

وزیراعظم نے لال قلعہ سے اپنے خطاب میں عوام کو پھر نئے سپنے دکھائے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے وعدوں کا حساب دیئے بغیر مودی سپنوں کے سوداگر کی طرح عوام کو نئی توقعات اور امیدوں سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ نئے وعدے ، نئے سپنے ، کچھ بناوٹی آنسو اور نئے ڈرامے کے سوا مودی کی تقریر میں کیا تھا ؟ گزشتہ تین سال کے وعدوں کی عدم تکمیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مودی نے اس مرتبہ مختصر تقریر کا فیصلہ کیا ۔ ظاہر ہے کہ جب وعدے پورے نہ ہوں تو پھر کم بات کرنے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔ کشمیر کیلئے مودی نے نئی تک بندی کی۔ نہ گولی سے نہ گالی سے بلکہ مسئلہ حل ہوگا کشمیریوں کو گلے لگانے سے ۔ مودی کو تین سال بعد کشمیریوں کو گلے لگانے کا خواب کیوں آیا۔ جب سے مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے کشمیریوں کی سماعت کے بجائے انہیں ملک دشمن کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ فوج کے انداز کارکردگی میں بھی تبدیلی آگئی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر میں گولی اور گالی دونوں چل رہے ہیں اور لال قلعہ سے گلے لگانے کی مودی کی بولی سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ محض حکومت کا ڈوغلاپن نہیں تو اور کیا ہے ۔ حریت قائدین کو ملک دشمن سمجھنے والی مودی حکومت اب کس طرح انہیں گلے لگائے گی جبکہ مسئلہ کی یکسوئی کے لئے مذاکرات ناگزیر ہیں جس کا احساس شائد تین سال بعد مودی حکومت کو ہوا ہے۔ کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرنے کی سازش کے درمیان گلے لگانے کے ڈائیلاگ سے کیا ہوگا۔ ویسے بھی جنہوں نے اپنی شریک حیات کو گلے نہیں لگایا، ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ کشمیریوں کو گلے لگائیں گے ۔ گجرات فسادات کے متاثرین کو پہلے گلے لگائیں جو آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ دہلی میں نریندر مودی تو اترپردیش میں ان کے شاگرد یوگی نے عدم استحکام کا ماحول تیار کردیا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے چیف منسٹر بننے کے بعد مسلمانوں پر مظالم کے جو بھی واقعات پیش آئے اور گاؤ رکھشکوں کی جانب سے معصوم افراد کی ہلاکتوں کے سلسلہ میں کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ انصاف پسند عوام کی جانب سے کوئی بڑا مظاہرہ نہیںہوئے لیکن یوگی کو گورکھپور سانحہ کی صورت میں ایسی قدرتی سزا ملی ہے کہ آج وہ دنیا بھر میں رسواء ہوچکے ہیں اور ان کے چہرہ پر لگی کالک شائد ہی دھل پائے گی۔ یہ قدرت کا قہر ہی تھا جو ہمیشہ خاموشی سے ا پنا کام کرجاتا تھا ۔ یوگی کو آئندہ اپنے فرائض کی تکمیل کے سلسلہ میں قدرت کے قہر کو بھولنا نہیں چاہئے ۔ انہیں سنبھلنے کیلئے ایک موقع ضرور ہے۔ اترپردیش میں یوم آزادی کی آڑ میں دینی مدارس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور قومی پرچم لہرانے کی فلم بندی کی ہدایت دی گئی۔ یہ ہدایت دراصل دینی مدارس کو دھمکانے کی کوشش تھی تاکہ ان کی سرگرمیوں پر روک لگائی جائے۔ حکومت کے احکام نہ ماننے پر این آئی اے سے تحقیقات کی دھمکی دی گئی۔ ان دھمکیوں کے باوجود بریلی میں مولانا اختر رضا خاں نے شریعت کا حوالہ دے کر احکامات تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے جراء ت مندانہ اقدام سے ملت اسلامیہ میں ایمانی حرارت دوڑ گئی اور حکومت کو علماء کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی اور مذہب کی عبادتگاہوں میں وندے ماترم پڑھا جاسکتا ہے؟ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
آنکھوں میں ہے کچھ ، دل میں ہے کچھ ، ہونٹوں پہ کچھ ہے
یوں بول رہے ہو تو کسی اور سے بولو