آنسوؤں کا سمندر

l 1908 میں شہر میں بھاری سیلاب l 15 ہزار افراد کی ہلاکتیں
l اس آبی آفت کے آج 110 سال مکمل
صرف دو دن کی مسلسل بارش کی وجہ سے شہر سیلاب میں ڈوب رہا ہے، گھروں میں سیلاب کا پانی داخل ہورہا ہے، کھانے کیلئے کھانا نہ سہی پینے کیلئے پانی نہیں اور نہ ہی بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ، حالات کو حسب معمول ہونے کیلئے کئی دن کا عرصہ لگا، شہریوں کو جان بچانے کیلئے اونچی عمارتوں اور بڑے بڑے درختوں پر چڑھنا پڑا، کافی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کی ہلاکتیں واقع ہوئیں اور اس وقت کے حکمراں نظام میر محبوب علی خاں بہادر نے سرکاری خزانوں کو کھول کر سیلاب زدگان بازآباد کاری انجام دی اور یہ سیلاب 26 ستمبر 1908 کو آیا تھا جو آج یعنی 26 ستمبر کو 110 برس مکمل ہوئے ہیں۔

حیدرآباد ۔ 25 ستمبر (سیاست نیوز) 26 ستمبر 1908 کی صبح 6 بجے سارا آسمان مکمل طور پر ابرآلود ہوگیا اور ایک گھنٹہ کے بعد بارش کے چھینٹوں کا آغاز ہوا، دوپہر 2 بجے بارش میں شدید اضافہ ہوا۔ نشیبی علاقے زیرآب آگئے، شام 6 بجے تک موسیٰ ندی پانی سے بھر گئی، مضافاتی علاقوں کے تالابوں و کنٹوں کے پشتے ٹوٹ گئے، وقارآباد، چیوڑلہ، معین آباد اور دیگر مقامات کے تالابوں اور کنٹوں کے بھی پشتے ٹوٹنے کی وجہ سے پانی موسیٰ ندی میں آنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے افضل گنج اور شہر کے دیگر علاقوں میں سیلاب کا پانی داخل ہونا شروع ہوگیا اور سب سے پہلے کولساواڑی علاقہ سیلاب کے پانی میں بہہ گیا۔ بعدازاں حسینی عالم، شہیدگنج، بدری الاوا، گھانسی میاں بازار، دارالشفاء، جام باغ، گولی گوڑہ اور افضل گنج سے ریڈنسی پیالس تک کے علاقوں میں سیلاب کا پانی بھر گیا اور سینکڑوں درخت اکھڑ گئے۔ افضل دواخانہ منہدم ہوگیا، افضل گنج کی عمارت پر پناہ لینے والے سینکڑوں افراد نے عمارت سے متصل بڑے درخت پر چڑھ کر جانیں بچائیں اور سیلاب کے وقت سینکڑوں افراد کی جانوں کا تحفظ کرنے والا یہ درخت ابھی بھی موجود ہے۔ موسیٰ ندی کے آس پاس والے علاقوں میں دو تین کیلو میٹر تک سیلاب کا پانی پھیل گیا، افضل گنج کی برج پانی میں بہہ گئی، پرانا پل پر سے سیلاب کا پانی تھپڑیں مارتا ہوا بہہ رہا تھا، اس کے دوسرے دن بھی یہی حالت رہی اور تیسرے دن یعنی 28 ستمبر کو موسیٰ ندی 60 فیصد اونچائی پر بہہ رہی تھی کیونکہ 36 گھنٹوں کے اندر 16 سنٹی میٹر بھاری بارش برسی تھی۔ افضل گنج کے پاس سیلاب کے پانی کی سطح 11 فیٹ اونچائی پر پہنچ گئی تھی اور سیلاب کا پانی چادرگھاٹ کی جانب سے عنبرپیٹ برج اور چارمینار کی جانب شاہ علی بنڈہ تک پہنچ گیا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں عوام پیٹلہ برج کے پاس جمع ہوگئے تھے اور صرف دو گھنٹوں کے اندر ہی پیٹلہ برج سیلاب کے پانی میں بہہ گئی جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد پانی میں بہہ گئے اور اس دن شام تک بھی سیلاب کی روانی میں کمی نہیں آئی تھی اور تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے تو 2 ہزار سے زائد مکانات پانی میں بہہ گئے تھے اور اس وقت کے حکمراں نواب میر محبوب علی خاں نے سیلاب زدگان کیلئے امدادی اقدامات کرتے ہوئے شلٹرس فراہم کئے یعنی نواب میر محبوب علی خان نے اپنے محلات میں ہی بے یار و مددگار و بے گھر افراد کو رہنے کیلئے جگہ فراہم کی جہاں عوام کیلئے رہنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔