آندھراپردیش میں سی بی ایس سی تعلیم ، تلنگانہ میں مخالفت

حیدرآباد ۔ یکم اکٹوبر ۔ ( سیاست نیوز) دسویں جماعت کے بعد طلبہ کے تعلیمی مستقبل کا آغاز ہوتا ہے لیکن ریاست آندھراپردیش کی تقسیم اور تشکیل تلنگانہ کے بعد دونوں حکومتوں کے اختیار کردہ رویہ کے باعث طلبہ کا مستقبل غیریقینی صورتحال کا شکار بنا ہوا ہے ۔ ریاست آندھراپردیش کے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں طلبہ تلنگانہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور حکومت آندھراپردیش کی جانب سے سی بی ایس سی طرز تعلیم و امتحانات اختیار کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ جبکہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے سی بی ایس ای طریقۂ امتحانات کی شدت سے مخالفت کی جارہی ہے ۔ اس صورتحال کو قبل از وقت دور نہیں کیا گیا تو ایسی صورت میں دونوں حکومتوں کے منصوبوں کے منفی اثرات طلبہ کے مستقبل پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ حکومت آندھراپردیش انٹر سال اول کے امتحانات کو برخواست کرتے ہوئے صرف بارہویں جماعت کے امتحانات رکھنے کے متعلق منصوبہ بندی میں مصروف ہے ۔ جبکہ حکومت تلنگانہ موجودہ طریقہ کار کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے ۔

سی بی ایس ای امتحانات کے طرز پر امتحانات کے انعقاد سے طلبہ کو فائدہ ہوگا یا نہیں اس پر عہدیدار غور کررہے ہیں لیکن اکثریت کا یہ استدلال ہے کہ اچانک سی بی ایس ای طرز امتحان کو اختیار کئے جانے سے طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ حکومت آندھراپردیش انٹرمیڈیٹ بورڈ کی جانب سے موصولہ تجاویز کو قبول کرنے کے متعلق سرگرم مشاورت میں مصروف ہے تاکہ طلبہ کے معیار تعلیم کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکے ۔ لیکن حکومت تلنگانہ کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کئے جانے کے واضح اشارے دیئے جارہے ہیں بلکہ اس تجویز کی کھلی مخالفت کی جارہی ہے ۔ اس مسئلے کی جلد از جلد یکسوئی نہ کئے جانے کی صورت میں زائد از 4.4 لاکھ طلبہ جو تلنگانہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اُن کے ساتھ ساتھ 5 لاکھ سے زائد آندھراپردیش کے طلبہ کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔ چونکہ انٹرمیڈیٹ سال اول کے امتحانات کو منسوخ کئے جانے کی صورت میں طلبہ پر نہ صرف تعلیم کا بوجھ بڑے گا بلکہ ایک سال میں دو سال کا نصاب مکمل کرتے ہوئے مسابقتی امتحانات کیلئے بھی خود کو تیار کرنا پڑے گا ۔ اسکول انتظامیہ جو ایس ایس سی تک ہے اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے طلبہ پر نہ صرف بوجھ عائد ہوگا بلکہ طلبہ ایک تعلیمی نظام کے عادی بن چکے ہیں ، انھیں اچانک ایک سال میں کامیابی کے نشانات کے حصول کی جانب راغب کروانا دشوار کن ثابت ہوگا ۔ اسی طرح کالجس میں خدمات انجام دینے والے لکچررس کا کہنا ہے کہ تعلیمی معیار میں بہتری کے نام پر حکومت آندھراپردیش کی جانب سے انٹر سال اول کے امتحانات کی تنسیخ کے منفی یا مثبت اثرات کے متعلق اُسی وقت کچھ کہا جاسکتا ہے جب ریاست آندھراپردیش اور تلنگانہ دونوں ہی ایک فیصلے پر آجائیںکہ آیا وہ سال اول کا امتحان برقرار رکھیں گے یا نہیں ۔

جب تک دونوں حکومتوں کی جانب سے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاتا ۔ اس پر مباحث فضول ہوں گے ۔ اسی لئے دونوں ریاستوں کے ذمہ داران بالخصوص محکمہ تعلیم کے عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کی عاجلانہ یکسوئی کیلئے فوری طورپر اقدامات کا آغاز کریں تاکہ بچوں کے تعلیمی سال کو بچایا جاسکے ۔ انٹرمیڈیٹ میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ بھی حکومت آندھراپردیش کے اس فیصلے کے مخالف ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ مسابقتی امتحانات کیلئے انٹرمیڈیٹ سال دوم کے دوران اُن کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں جبکہ سال اول کے دوران وہ انٹرمیڈیٹ میں زیادہ سے زیادہ نشانات کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے انٹرمیڈیٹ سال اول کے امتحانات کی برخواستگی کی صورت میں اُنھیں نہ صرف کافی محنت کرنی پڑے گی بلکہ دو سال کی تعلیم کے یکجا امتحانات سے کافی دشواریاں بھی پیدا ہوںگی۔ محکمہ تعلیم کے عہدیداروں کے بموجب فی الحال دونوں ریاستوں میں 6,200 انٹرمیڈیٹ جونیر کالجس چلائے جارہے ہیں جہاں پر تقریباً 10 لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ ان طلبہ اور کالجس کو منفی اثرات سے بچانے کیلئے متعدد اقدامات پر غور و خوض کیا جارہا ہے ۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ایس ایس سی کے بعد انٹرمیڈیٹ سال اول میں ووکیشنل کورس کے طورپر نرسنگ جیسے کورسس متعارف کئے گئے ہیں جبکہ آندھراپردیش کی جانب سے اس طرح کی کوئی سہولت انٹرمیڈیٹ طلبہ کو فراہم نہیں کی گئی ہے جوکہ کئی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔ دونوں ریاستوں کے متعلقہ محکمہ جات کے درمیان سرگرم مشاورت کے بعد ہی اس مسئلے کو حل کرنے کے اُمور قطعیت دیئے جاسکتے ہیں۔ کارپوریٹ جونیر کالجس انٹر میڈیٹ سال اول کی تنسیخ کی بالواسطہ تائید کررہے ہیں اور اُن کا استدلال ہے کہ موجودہ تعلیمی معیارات اور مسابقتی دور میں طلبہ کو بہتر سے بہتر نظام تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔