آندھراپردیش ابھی تقسیم نہیں ہوا، لوک سبھا ریکارڈ سے نیا تنازعہ

ریاست کی تقسیم دستور اور قانون کی خلاف ورزی، کانگریس کے قائد ارون کمار نے دستاویزات جاری کئے، چندرا بابو اور جگن کی خاموشی پر تنقید
حیدرآباد ۔ 5 ۔جون (سیاست نیوز) کیا متحدہ آندھراپردیش واقعی تقسیم ہوچکا ہے ؟ اگرچہ چار سال قبل پارلیمنٹ میں قانون کی منظوری کے ذریعہ دو علحدہ ریاستیں وجود میں آچکی ہیں لیکن لوک سبھا سکریٹریٹ کے ریکارڈ کے مطابق آندھراپردیش تنظیم جدید قانون منظور نہیں ہوا ہے۔ لوک سبھا سکریٹریٹ نے 18 فروری 2014 ء کو ایوان کی کارروائی کی جو روئیداد شائع کی ہے ، اس کے مطابق تنظیم جدید قانون منظور نہیں ہوا ہے۔ اس طرح ایک نیا تنازعہ پیدا ہوگیا اور آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والے قائدین اس مسئلہ پر لوک سبھا میں مباحث کی مانگ کر رہے ہیں ۔ تلنگانہ نے اپنا چوتھا یوم تاسیس منایا تو دوسری طرف آندھراپردیش میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ اور ممتاز قانون داں یو ارون کمار نے لوک سبھا سکریٹریٹ کا ریکارڈ جاری کرتے ہوئے سنسنی دوڑا دی ہے۔ اس ریکارڈ کی بنیاد پر آندھراپردیش کی تقسیم قانون اور دستور کے مطابق عمل میں نہیں آئی ہے۔ لوک سبھا کا یہ ریکارڈ تیار ہوئے چار سال کا وقت گزر گیا لیکن آج تک اس میں کوئی ترمیم یا اصلاح نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں تنظیم جدید قانون کی منظوری پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ارون کمار نے آندھراپردیش تنظیم جدید قانون کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظوری کی تاریخوں کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس کی خاموشی کو معنی خیز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ غیر دستوری طریقہ سے ریاست کی تقسیم ثابت ہونے کے باوجود دونوں پارٹیاں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے مجوزہ مانسون سیشن میں تنظیم جدید قانون کی منظوری کے طریقہ کار پر مباحث کی نوٹس دینے کا مطالبہ کیا تاکہ حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکے۔ لوک سبھا میں 18 فروری 2014 ء اور راجیہ سبھا میں 20 فروری 2014 ء کو تنظیم جدید قانون منظور کیا گیا تھا ۔ ارون کمار نے چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے لوک سبھا کے ریکارڈ کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں مباحث کی نوٹس دینے کی خواہش کی لیکن نائیڈو نے اس قد کا کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں اس دن کی کارروائی کا لفظ بہ لفظ ریکارڈ شائع کیا گیا ہے جس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ تنظیم جدید قانون دستور کے مطابق منظور نہیں کیا گیا ۔ لوک سبھا کے لائیو ٹیلی کاسٹ اور ایوان کے دروازے بند کرتے ہوئے قانون کو منظوری دی گئی ۔ برسر اقتدار پارٹی یہ جانتی تھی کہ ایوان میں اسے اکثریت نہیں ہے۔ متحدہ آندھرا کے حامی ارکان کو ایوان سے معطل کرتے ہوئے موجود ارکان میں ایوان کی تقسیم اور تائید اور مخالف ارکان کی گنتی کئے بغیر ہی قانون منظور کرلیا گیا۔ پارلیمنٹ کے رولز کے مطابق قانون کی ہر ذیلی شق کو علحدہ طور پر منظوری کیلئے پیش کیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ ارون کمار نے بتایا کہ اس وقت کے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے انہوں نے دستاویزی ثبوت کے ساتھ نمائندگی کی تھی ۔ اس مسئلہ کو سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا۔ ارون کمار نے کہا کہ قانون کی منظوری میں خامیوں کو جانتے ہوئے تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وائی ایس آر کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ استعفیٰ کی منظوری کیلئے اسپیکر سے رجوع ہوئے ہیں جس پر سمترا مہاجن نے انہیں ایک ہفتہ بعد غور و خوض کے ساتھ حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ ارون کمار نے تجویز پیش کی کہ وائی ایس آر کانگریس ارکان استعفی کیلئے دوبارہ رجوع ہوئے بغیر پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں مباحث کی نوٹس دیں تاکہ کانگریس اور بی جے پی کو بے نقاب کیا جاسکے ۔ اگر مباحث کی نوٹس مسترد کردی جائے تو ایوان میں استعفیٰ کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آندھراپردیش کے عوام سے جس طرح ناانصافی کی گئی اس پر ثبوت کے باوجود اگر آواز نہیں اٹھائی گئی تو پھر آندھراپردیش کو خصوصی موقف توکجا تقسیم میں رقم کا حصہ بھی نہیں ملے گا۔ انہوں نے ریمارک کیا کہ ہماری خاموشی سے مرکز فائدہ اٹھاکر جانوروں سے بدتر سلوک کرسکتا ہے۔ ارون کمار نے کہا کہ غیر قانونی اور غیر دستوری طریقہ سے قانون کی منظوری پر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مباحث کی نوٹس دیئے جانے سے آندھرپردیش کی عوام میں یہ اعتماد پیدا ہوگا کہ کوئی تو ہماری آواز اٹھانے والا موجود ہے۔ مانسون سیشن جولائی میں طلب کیا جائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی اسے جون کے اواخر میں طلب کریں۔ ارون کمار نے لوک سبھا میں قانون کی منظوری کے موقع پر ارکان کی موجودگی اور غیر حاضری کے اعداد و شمار پیش کئے ۔ انہوں نے بل کی تائید اور مخالفت کرنے والے ارکان کی فہرست بھی تیار کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوان کی تقسیم اور سروں کی گنتی کے بغیر بل کی منظوری کا اختیار پارلیمنٹ کو بھی حاصل نہیں ۔ انہوں نے کرناٹک کی مثال پیش کی اور کہا کہ اگر سپریم کورٹ لائیو ٹیلی کاسٹ کی ہدایت نہ دیتا تو وہاں بی جے پی حکومت برقرار رہتی ۔ کرناٹک کی صورتحال کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ لوک سبھا میں لائیو ٹیلی کاسٹ بند کرتے ہوئے اس طرح ناانصافی کی گئی ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ نریندر مودی نے لوک سبھا میں بیان دیا تھا کہ ایوان کے دروازے بند کرتے ہوئے آندھرا سے ناانصافی کی گئی جبکہ ان کی پارٹی نے خود بل کی تائید کی تھی ۔ چندرا بابو نائیڈو نے مہاناڈو میں اسی بات کو دہرایا کہ ایوان کے دروازے بند کرتے ہوئے آندھرائی عوام سے ناانصافی کی گئی ہے۔ ارون کمار نے حیرت کا اظہار کیا کہ دستاویزی ثبوت کے باوجود تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی لب کشائی کیلئے تیار نہیں ہے۔ ایوان میں مباحث نہ ہوں تو عوام کا دونوں اداروں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ لوک سبھا کے سابق اسپیکرس کا نئی دہلی میں اجلاس طلب کرتے ہوئے تنظیم جدید قانون کی منظوری کے طریقہ کار پر بحث کی جائے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو ریاست کے مفادات کے بجائے لوک سبھا نشستوں میں اضافہ کی فکر لاحق ہے۔