حیدرآباد 30 اپریل ( سیاست ڈاٹ کام ) مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے آلیر ( پانچ مسلم نوجوانوں کے ) اور سیشاچلم ( 20 مزدوروں کے ) انکاؤنٹر کو حقیقی یا فرضی کچھ بھی قرار دینے سے گریز کیا اور کہا کہ اس پر عدالتوں مقدمات چل رہے ہیں اس لئے وہ کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ان انکاؤنٹرس کی عدالتوں میں سماعت چل رہی ہے اس لئے وہ کوئی مداخلت نہیں کرسکتے ۔ اس سلسلہ میں عدالتیں جو کچھ بھی فیصلہ کرینگی اس پر عمل کیا جائیگا ۔ تلنگانہ میں آلیر کے مقام پر پانچ مسلم زیر دریافت نوجوانوں کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر پر کانگریس کے رکن راجیہ سبھا مسٹر ایم اے خان اور آندھرا پردیش میں سیشاچلم کے مقام پر صندل کی لکڑی کے اسمگلرس کے نام پر 20 مزدوروں کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر کو ڈی ایم کے کی رکن راجیہ سبھا کنی موڑھی نے راجیہ سبھا میں موضوع بحث بنایا ۔ ان ارکان کا جواب دیتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ انہیں دونوں ریاستوں میں ہوئے انکاؤنٹرس کے تعلق سے حکومتوں سے رپورٹس مل چکی ہیں ۔
مرکزی حکومت تاہم اس میں کسی طرح کی مداخلت سے قاصر ہے کیونکہ دونوں ہی انکاؤنٹرس کے معاملات ہائیکورٹ میںہیں۔ انکاؤنٹرس پر ایوان میں کانگریس ارکان سدرشن نچپن ‘ ایم اے خان اور جئے رام رمیش نے مسئلہ اٹھایا اور ضروری کارروائی پر زور دیا ۔ اس کے علاوہ سی پی آئی کے رکن ڈی راجہ اور ڈی ایم کے کی رکن کنی موڑھی نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے ان واقعات کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات پر زور دیا ۔ ارکان نے الزام عائد کیا کہ انکاونٹرس کے نام پر بے قصور نوجوانوں اور غریب مزدوروں کو موت کی نیند سلادیا گیا ۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ مرکزی حکومت اس پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ معاملات عدالتوں میں زیر دوران ہیں۔ عدالتیں جو فیصلہ کرینگی اس پر عمل کیا جائیگا ۔ ایم اے خان نے مباحث میں کہا کہ پولیس نے عدالتی تحویل میں موجود زیر دریافت نوجوانوں کا قتل کرکے انصاف کا قتل کردیا ہے جس کی وہ مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن نوجوانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا ہے وہ دہشت گرد تھے یا نہیں اس کا فیصلہ عدلیہ سے ہوگا
لیکن پولیس نے جس طرح سے انہیں ہلاک کیا اس سے عوام میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ۔ اس کی عدالتی یا سی بی آئی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ مسٹر ایم اے خان نے وزیر داخلہ پر زور دیا کہ وہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے انکاؤنٹرس کو یکساں نہ دیکھے کیونکہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔ آلیر میں مسلم نوجوانوں کی ہلاکت عدالتی تحویل میں موجود قیدیوں کا قتل ہے ۔ ہندوستان میں ایسی مثال کہیں نہیں مل سکتی ۔ کانگریس دور حکومت میں پارلیمنٹ اور ممبئی دہشت گرد حملوں میں ملوث رہنے والوں کو بھی عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا اور عدالت کے فیصلے کے بعد انہیں سزائیں دی گئیں تاہم تلنگانہ میں پولیس نے عدالت کے فیصلے سے قبل ہی زیر دریافت نوجوانوں کا قتل کردیا ۔ پولیس نے راست قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے جس سے عوام پولیس پر سے اعتماد اٹھ جائیگا۔