شہر ہی میں کمیشن کی کھلی سماعت کے باوجود متاثرین کو انصاف دلانے میں عدم دلچسپی کا اظہار ۔ صرف یادداشت کی پیشکشی پر اکتفا
حیدرآباد۔/24اپریل، ( سیاست نیوز) مسلم نوجوانوں کی پولیس کے فرضی انکاؤنٹر میں ہلاکت کے سلسلہ میں قومی انسانی حقوق کمیشن سے موثر نمائندگی میں مسلم جماعتیں اور تنظیمیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ایسے وقت جبکہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے خود حیدرآباد پہنچ کر شکایات کی سماعت کا اہتمام کیا اور کھلی سماعت رکھی گئی لیکن اس حساس اور سنگین مسئلہ پر مسلم قائدین موثر نمائندگی سے دور رہے ۔ احتجاجی بیانات اور یادداشتوں کی پیشکشی مسئلہ کا حل نہیں اور انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے کھلی سماعت کے باوجود موقع سے استفادہ کرنے میں جماعتیں اور تنظیمیں ناکام ہوگئیں۔تحقیقاتی کمیشنوں کے معاملہ میں کھلی سماعت میں نمائندگی اور کمیشن کے سوالات و اعتراضات کا جواب دینا اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسکے برخلاف صرف یادداشت کی پیشکشی یا پھر ملاقات کرکے شکایتی نوٹ حوالہ کرنا اہمیت نہیں رکھتا۔ قومی انسانی حقوق کمیشن اور حال ہی میں قومی بیاک ورڈ کلاسیس کمیشن کی کھلی سماعت کے دوران بہت کم افراد اور اداروں نے حصہ لیا۔ کمیشن کے اصول اور ضوابط کے مطابق وہ کھلی سماعت میں پیش کئے گئے دلائل اور مباحث کو اہمیت دیتا ہے جبکہ اسے روانہ کردہ یادداشتوں اور مکتوبات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ سماعت کے موقع پر مسلم جماعتوں اور تنظیموں کی عدم موجودگی نے انکاؤنٹر کے مسئلہ پر انصاف کے حصول اور خاطیوں کو سزا دلانے میں ان کی عدم دلچسپی کا ثبوت دیا ہے۔ انکاؤنٹر کے نام پر احتجاجی جلسے اور بیانات جاری کرنے والی جماعتیں اور تنظیموں میں بہت کم لوگ انسانی حقوق کمیشن سے رجوع ہوئے اور صرف یادداشت کی پیشکشی پر اکتفا کرتے دیکھے گئے۔ کھلی سماعت میں فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کئے گئے وقار احمد کے والد اور بعض دوسروں نے حصہ لے کر اپنی شکایت کے حق میں مدلل بحث کی اور کمیشن کو یہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ انکاؤنٹر پولیس کے منصوبہ کا حصہ ہے۔ اگر احتجاج کرنے والی قیادت اور دیگر جماعتیں اور تنظیمیں اسی طرح قابل وکلا کے ساتھ کھلی سماعت میں پیش ہوتیں تو پولیس کے خلاف مزید دلائل پیش کئے جاسکتے ۔قومی انسانی حقوق کمیشن کے روبرو انکاؤنٹر کے مسئلہ پر نمائندگی میں مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے سرگرم رول ادا نہیں کیا جس طرح انہیں ادا کرنا چاہیئے۔ کمیشن کے علاوہ عدالت سے رجوع ہونے میں بھی مسلم جماعتوں کا رویہ مایوس کن رہا۔ چتور انکاؤنٹر کے معاملہ میں جس طرح عدالت سے کئی افراد رجوع ہوئے اور پولیس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے میں کامیابی حاصل کی اسی طرح قومی انسانی حقوق کمیشن سے بھی چتور انکاؤنٹر کے سلسلہ میں موثر نمائندگی کی گئی برخلاف اس کے مسلم نوجوانوں کو ہلاک کئے جانے پر مسلم قیادت و تنظیمیں بیان بازی اور جلسوں تک ہی خود کو محدود کرچکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انصاف کے حصول کیلئے کمیشن کی سماعت میں نمائندگی کی جانی چاہیئے تھی لیکن قیادت کی دعویدار جماعت اور اسکے زیر سایہ چلنے والے فورم نے سماعت میں شرکت کے بجائے صرف یادداشت پیش کرنے پر اکتفا کیا۔