آفرین سردار علی قبر کا سلوک

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جب نیک، صالح اور صاحب ایمان کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے خوش آمدید کہتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ میری پشت پر جو لوگ چلتے پھرتے ہیں، ان سے مجھے بہت پیار ہے۔ آج جب کہ تمھیں میرے حوالے کیا گیا اور میری تولیت میں دیا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہوں۔ پھر یہ قبر تاحد نگاہ وسیع و عریض ہو جاتی ہے اور میت کے لئے ماحول خوش کن ہو جاتا ہے‘‘۔ پھر صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ جنت کی جانب سے اس کے لئے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اسے جنت کی ٹھنڈی ہوا نصیب ہوتی ہے اور جنت کے مناظر کا خوش کن دیدار ہوتا ہے اور وہ بندہ نہایت اطمینان کے ساتھ قبر میں رہتا ہے۔ یعنی برزخ کی یہ زندگی سکون کے ساتھ گزرتی ہے اور اب بندے کو اگلے مرحلے کا انتظار رہتا ہے۔
لیکن جب کوئی کافر، مشرک اور فاسق و فاجر انسان دفن کیا جاتا ہے تو قبر نہ اس کا استقبال کرتی ہے اور نہ خوشی و مسرت کا اظہار، بلکہ اس پر انتہائی غضبناک اور ناراض ہوتی ہے۔ کہتی ہے: اے انسان! تو میری پشت پر چلتا تھا، لیکن میں تجھ سے سب سے زیادہ ناراض تھی۔ آج جب کہ دنیا والوں نے تجھے میرے حوالے کیا ہے تو تو دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں۔ پھر قبر انتہائی تنگ ہو جاتی ہے اور اس کو دبوچ لیتی ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں‘‘۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی اُنگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے دکھایا کہ ’’جسم کی کیا کیفیت ہوگی‘‘۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ ’’اس میت پر ستر (۷۰) اژدہے مسلط کردیئے جائیں گے۔ یہ سب اس کو نوچتے اور ڈستے رہیں گے اور ان کا زہر اتنا خطرناک ہوگا کہ اگر وہ قبر کے باہر پھونک ماردیں تو اس کے اثر سے اس جگہ تاقیامت کوئی ہریالی اور سبزہ نہ اُگے۔ سانپوں کے ڈسنے اور نوچنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ قیامت قائم نہ ہو جائے اور لوگ قبر سے نکل کر حشر کے میدان میں حاضر نہ ہو جائیں‘‘۔
واضح رہے کہ قبر کا یہ دردناک عذاب دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوگا، لیکن اس کا ہونا یقینی ہے اور تمام ہی فرعون، ہامان، نمرود، قارون، ظالم و جابر اور انصاف کا گلا گھونٹنے والے اس سے دو چار ہوتے رہیں گے۔