آصف سابع کے خلاف الزامات حقائق سے عدم واقفیت

حیدرآباد ۔ 28 ۔ جنوری : ( پریس نوٹ ) : تلنگانہ کی تشکیل کے خلاف تمام سازشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صدر کانگریس شریمتی سونیا گاندھی کی منظوری سے جب کانگریس ورکنگ کمیٹی نے علحدہ ریاست کے قیام کی تائید کی تو سیما آندھرا کے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں پر بجلی گرپڑی اور نہ صرف دوسری جماعتوں بلکہ کانگریس کے قائدین نے بھی ڈسپلن شکنی کرتے ہوئے کانگریس ہائی کمان کے فیصلے کی مخالفت شروع کردی ۔ لیکن شریمتی سونیا گاندھی تلنگانہ عوام سے کئے ہوئے اپنے وعدہ پر اٹل رہیں اور ریاست کی تقسیم کا بل آندھرا پردیش اسمبلی کو بھیج دیاگیا ۔

آندھرائی قائدین اگر علاقہ واری عصبیت کی بنا پر گر اپنی پارٹی کے ہائی کمان کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان قائدین نے غیر ضروری طور پر آصف سابع حضور نظام پر بے بنیاد الزامات کی بوچھار کردی اور اپنی تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا کھلا ثبوت دیا ۔ ان خیالات کا اظہار جناب مرزا محب بیگ نائب صدر نشین گریٹر حیدرآباد کانگریس نے اپنے ایک بیان میں کیا اور کہا کہ آندھرائی قائدین سابق حکمران ریاست حیدرآباد پر الزامات لگارہے ہیں وہ تاریخ سے ناواقف ہیں اور اپنی کٹر فرقہ پرستی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آصف سابع برٹش انڈیا کی سب سے بڑی دیسی ریاست کے انصاف پسند اور رعایا پرور بادشاہ تھے اور ان کے پاس مذہب کا کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا ۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے

اور سیکولرازم کی زندہ مثال تھے ۔ عوامی خدمات میں دواخانہ عثمانیہ ، ہائی کورٹ ، عثمانیہ یونیورسٹی ، عثمان ساگر ، حمایت ساگر ، اسمبلی کی اور دوسری عمارتیں ان کے ریاستی انتظام کی زندہ مثالیں ہیں جن سے نہ صرف آج بلکہ آنے والی نسلیں بھی استفادہ کریں گی ۔ جناب محب بیگ نے کہا کہ حضور نظام کے سیکولرازم اور روا داری کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ان کے شخصی ڈاکٹر کرنل واگھرے تھے اور آخر وقت میں ان کے معالج ڈاکٹر بنکٹ چندر تھے ۔ جہاں سابق ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کشن پرساد تھے وہیں کئی غیر مسلم جیسے وینکٹ رام ریڈی کوتوال اس کے علاوہ راجا ترمبک لال اور ایس این ریڈی وغیرہ بڑے عہدوں پر فائز تھے ۔۔