زندگی کس قدر مہان ہے تو
سب ہیں مجبور آسمان ہے تو
آسام این آر سی رپورٹ
مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کا اصل مقصددھیرے دھیرے روبہ عمل لایا جارہا ہے تو یہ تبدیلی ہندوستانی مسلمانوں کے لئے خطرناک مستقبل کا انتباہ دے رہی ہے۔ آسام میں ہندوستانی شہریوں کو ان کی شناخت ہے اور وطنیت سے محروم کرنے کی منظم سازش کی جارہی ہے۔ آسام کے مسلمانوں کے خلاف ہر وقت شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تنظیموں نے جشن کا ماحول پیدا کرلیا ہے کیونکہ حکومت آسام اور مرکز نے مل کر ’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘ کی سیاست پر عمل پیرا ہورہی ہیں۔ آسام کے بعد مغربی بنگال کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ شہری مردم شماری میں این آر سی نے آسام کی جو فہرست تیار کی ہے اس سے 40,07,768 درخواستوں کو نااہل سمجھ کر فہرست سے غائب کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں گزشتہ پانچ سال سے آسام میں شہریوں کی شناخت مہم اور شہریت کی نشاندہی کرنے والے ادارہ این آر سی نے اپنا مواد مکمل کرکے شائع کردیا ہے جس میں 40 لاکھ سے زائد شہریوں کے نام حذف کردیئے گئے ہیں۔ آسام کے شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دینے کا برسوں سے منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس منصوبہ کے تحت کام کیا جارہا ہے۔ حکومت کی یہ کارکردگی ملک کے مستقبل کیلئے فال نیک نہیں ہے۔ آخر ایک ہی جھٹکے میں حکومت نے 40 لاکھ شہریوں کو سرزمین ہند سے ہی غائب بتایا ہے تو اپنی شہریت کے لئے دی گئی درخواستوں اور درخواست گذاروں کا اتہ پتہ ہی لاپتہ کردینا منظم سازش کا ہی حصہ ہے اور گذشتہ 5 سال کی محنت رائیگاں کردینے کے مترادف ہے۔ آخر حکومت اس بات کے لئے جوابدہ کیوں نہیں ہے کہ 40 لاکھ شہری کہاں چلے گئے؟ کیا حکومت نے ان کے لئے بازآبادکاری پروگرام تیار کیا ہے ۔ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے آسام کے شہریوں کے ساتھ ہونے والی دھاندلیوں کو بی جے پی کی ووٹ بینک کی سیاست قرار دیا ہے۔ مرکزی حکومت برسوں سے آسام میں رہنے والے شہریوں کو نکال باہر کرنے کی غیر انسانی کارروائی کرے گی تو یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ کھڑا ہوگا۔ چار ملین شہریوں کو ریکارڈ سے غائب کردینا معمولی کارروائی نہیں ہے ، یہ کارروائی عوام کے اندر بے چینی اور اضطراب کا سبب بن چکی ہے۔ نیشنل رجسٹرآف سٹیزنس (NRC) کا مسودہ صرف اس بنیاد پر تیار کیاگیا ہے کہ جنہوں نے1971ء سے قبل کی اپنی رہائش کا ثبوت پیش کیا ہے جبکہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران کئی بنگلہ شہریوں کے فرار ہونے کی گمراہ کن اطلاع کے ساتھ ایک ذہن سازی کرتے ہوئے بعض تنظیموں نے ہندوستانی شہریوں کو مشکوک بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی، اب مرکز کی حکومت نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے یہ واضح کردیا ہے کہ آسام میں تازہ قدم اٹھاتے ہوئے دائیں بازو کے سربراہ وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے مستقبل کو تباہ کرتے ہوئے ان کی شہریت کے جنازہ پر ہندوستانی ہندو اکثریتی آبادی کو کھڑا کرنے کی پیش رفت شروع کردی ہے۔ تقریباً 30 ملین افراد نے اس فہرست میں نام شامل کرنے کی درخواست دی تھی جن میں سے 4 ملین شہریوں کے نام غائب کردیئے گئے ۔ اس واقعہ کو تشویشناک قرار دے کر اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں آواز اُٹھائی ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج اور شکایت کو دور کرنے کی خاطر وقتی طور پروزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے یہ تیقن دیا کہ تمام کے ساتھ انصاف ہوگا، اور جن شہریوں کے نام نہیں ہیں وہ دوبارہ درخواست دے کر این آر سی کی قطعی رپورٹ میں اپنے نام درج کراسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سال سے روپیہ اور وقت خرچ کرنے کے بعدبی جے پی حکومت ایک جامع مسودہ تیار نہیں کرسکی اور آسام میں مقامی اور غیر مقامی عوام کی درست نشاندہی نہیں کرسکی تو یہ سراسر کوتاہی اور متعصبانہ منصوبوں کو روبہ عمل لانے کی سازش ہے۔ گویا حکومت از خود اپنے کاموں کے ذریعہ اپنے خفیہ منصوبوں کو آشکار کرچکی ہے۔ 40لاکھ سے زائد شہریوں کو غیر ہندوستانی ثابت کرنے کی غلطی بی جے پی حکمرانی کو لے ڈوبے گی۔ عالمی سطح پر حکومت اور ہندوستانی سیاست کی موجودہ صورتحال کی بدنامی ہوری ہے۔ ہندوستان کوہندو راشٹر بنانے کی یہ سازش ملک کو تباہی کی جانب لے جائے گی۔آسام میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں اور انہیں غیر شہری تصور کرکے پریشان کرنے کے واقعات 1980 سے زور پکڑے ہیں۔ 1983 میں مسلم دشمن عناصرنے آسام کے 2000 مسلمانوں اور ان کے بچوں کو صرف ایک ہی دن میںگلے کاٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ اب سرکاری طور پر ہی 3 تا 4 ملین آسامی باشندوں کو ایک ہی جھٹکے میں بے یارومددگار اور مشکوک بنادیا ہے تو ان کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے ، ان کے اندر خوف و ہراس پہلے ہی سے پیدا کردیا تھا اب ان کے پیروں تلے زمین کھینچ لی جارہی ہے، سر پر سے سائبان اٹھالیا گیا ہے تو آر ایس ایس اور بی جے پی کے قائدین اس اقدام کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں، اور اب سارے ملک میں این آر سی کروانے کا مطالبہ اس شر انگیز پالیسیوں کا حصہ ہے جو برسوں سے ہندوتوا کے سینے میں فروغ پارہی ہیں۔