آزادی کامطالبہ کرنے والے علحدگی پسندوں سے مذاکرات ناممکن

وادی کشمیر کی بدامنی کو ختم کرنے صرف مسلمہ سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات، سپریم کورٹ میں مرکز کا بیان
نئی دہلی ۔ 28 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) حکومت نے آج سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ جموں کشمیر میں مسلمہ سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہے تاکہ بحران کو حل کیا جاسکے۔ تاہم مرکز نے یہ وضاحت کی ہیکہ وہ آزادی کا مطالبہ کرنے والے علحدگی پسندوں کے ساتھ بات نہیں کرے گی۔ اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے واضح کیاکہ حکومت بات چیت کے میز پر صرف اس وقت میں آئے گی جب کوئی مسلمہ پارٹی مذاکرات میں حصہ لے گی۔ علحدگی پسند عناصر سے ہرگز مذاکرات نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک بنچ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ مرکز مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ایس کے کول پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ کے سامنے بیان دیتے ہوئے روہتگی نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ جموں و کشمیر ہائیکورٹ بار اسوسی ایشن نے مرکز  کے ساتھ مل کر اس بحران کو حل کرنے کیلئے غوروخوض کرنے اور مذاکرات کے لئے آگے نہیں آرہا ہے۔ روہتگی نے کہا کہ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی اور ریاست کے چیف منسٹر نے ملاقات کرتے ہوئے وادی کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ بنچ نے جموں کشمیر ہائیکورٹ بار اسوسی ایشن سے کہا تھاکہ وہ وادی کشمیر میں سڑکوں پر پُرتشدد احتجاج کرنے والوں اور سنگباری میں مصروف نوجوانوں کے بشمول بحران کو حل کرنے کیلئے تجاویز پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے بار اسوسی ایشن کو یہ بھی واضح کردیا کہ تمام فریقین سے مذاکرات کے بعد ہی وہ اپنی تجاویز پیش کرسکے گا اور صرف یہ کہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی نہیں کیا جاسکتا کہ کشمیر میں وہ ہر کسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اسوسی ایشن کا کہنا ہیکہ ہر ایک چیز کے لئے مثبت شروعات کی ضرورت ہوتی ہے۔

بار اسوسی ایشن اس سلسلہ میں اپنا اہم رول ادا کرسکتا ہے اور کوئی ایک اچھا منصوبہ کے ساتھ رجوع ہوسکتا ہے۔ وادی میں معمول کے حالات بحال کرنے کیلئے ایک روڈ میاپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے مرکز کے سامنے یہ بھی واضح کردیا کہ عدالت اس معاملہ میں صرف اس وقت ازخود مداخلت کرسکتی ہے جب اگر اسے یہاں اپنا رول ادا کرنے کا احساس پیدا کیا جائے۔ یہ کوئی عدالتی دائرہ کار کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ اس معاملہ میں عدالت کا کوئی رول نہیں ہے تو اور آپ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کا کوئی عدالتی دائرہ کار نہیں ہے تو اسی لمحہ ہم یہ فائل بند کردیتے ہیں۔ بنچ نے اٹارنی جنرل کو یہ بات بتائی جو اس کیس کی سماعت کے آخری مرحلہ میں تھے اور انہوں نے بار اسوسی ایشن کی جانب سے پیش کردہ بعض تجاویز پر اعتراض کیا تھا۔ ان تجاویز میں علحدگی پسندوں کو بھی نظرانداز کرنے کا مسئلہ شامل تھا۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ دونوں فریقین کو مل کر قدم اٹھانا چاہئے لیکن پہلا قدم وکلاء کی اسوسی ایشن کی جانب سے ہونا چاہئے جس نے سپریم کورٹ سے اس مسئلہ کو رجوع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ وادی کشمیر کی صورتحال سے وہ واقف ہے جو نہایت ہی نازک بنی ہوئی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ کی سماعت کی تاریخ 9 مئی مقرر کی ہے۔ سپریم کورٹ نے جموں کشمیر ہائیکورٹ بار اسوسی ایشن کی جانب سے داخل کردہ اپیل کی سماعت کا آغاز کیا ہے یہ اپیل ہائیکورٹ کے احکام کے خلاف داخل کی گئی ہے جس میں ہائیکورٹ نے پیلٹ گنس کے استعمال پر حکم التواء کیلئے زور دیا ہے کیونکہ اس کی زد میں آ کر کئی افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 10 اپریل کو کی گئی سماعت کے دوران مرکز نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ ہجوم پر قابو پانے کیلئے دوسرا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ربر کے گولیاں استعمال کی جاسکتی ہیں۔