آر ٹی سی بسوں کی ابتر حالت ، مسافرین کی سہولت نظر انداز

حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کی قائم کارپوریشن میں بسوں کی تعداد 27 سے تقریبا 23 ہزار ہوگئی
حیدرآباد ۔ 18 ۔ ستمبر : سقوط حیدرآباد کو فرقہ پرست عناصر یوم آزادی تلنگانہ کی حیثیت سے مناتے ہیں حالانکہ انسانیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس دن کو یوم غم منایا جانا چاہئے ۔ اس لیے کہ ریاست حیدرآباد میں انڈین یونین انضمام کے لیے جو سازشیں رچی گئیں اور دھوکہ بازیاں کی گئیں اور جس طرح کے مظالم ڈھائے گئے اس میں لاکھوں کی تعداد میں بے قصور مسلمان شہید ہوئے ۔ فرقہ پرست جماعتیں اور تنظیمیں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے خلاف بھی عجیب و غریب بکواس کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آصف سابع کو بجا طور پر ہندوستان میں سائنس و ٹکنالوجی ، طب ، تعلیم تحقیق ، مواصلات ، برقی آبپاشی اور ذرائع حمل و نقل کے شعبوں میں ترقی کا نقیب کہا جاسکتا ہے ۔ 1932 میں جب کہ ہندوستان کی دیگر دیسی ریاستوں میں پکی سڑکوں کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اس وقت سارے آندھرا پردیش میں سڑکوں کا جال پھیلایا گیا ۔ اور پھر نظام اسٹیٹ ریلوے کے ایک شاخ کی حیثیت سے نظام اسٹیٹ ریل اینڈ روڈ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ قائم کر کے ان سڑکوں پر بسیں چلائی گئیں اور ساری دنیا آج اسے اے پی ایس آر ٹی سی کے نام سے جانتی ہے ۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے دور حکمرانی میں اس محکمہ کا 27 بسوں اور 166 ملازمین کے ساتھ آغاز کیا گیا تھا اور اس پر 3.93 لاکھ روپئے کے مصارف آئے لیکن آج آصف جاہی حکمراں کا لگایا ہوا یہ پودا ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ اے پی ایس آر ٹی سی کی بسوں کی تعداد 1932 میں جو صرف 27 تھی اب 22429 تک جا پہنچی ہے جن میں 19328 آر ٹی سی کی اپنی بسیں ہیں اور 3131 بسیں اس نے کرایہ پر حاصل کر رکھی ہیں ۔ ان بسوں کے ذریعہ یومیہ تقریبا دو لاکھ مسافرین کو آندھرا اور تلنگانہ کے کونے کونے تک پہنچایا جاتا ہے ۔ اس کے ملازمین کی تعداد 166 سے 122191 اور یومیہ کمائی 2182.4 لاکھ ہوگئی ہے ۔ اس کے باوجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کی مختلف روٹس پر چلنے والی آر ٹی سی بسوں کی حالت بہت خراب ہے ۔ کسی بس کے ہیڈلائٹس غائب ہیں تو کئی بسیں ایسی ہیں جن کے انڈیکٹرس ہی نہیں ہیں ۔ کچھ بسوں کے سائیڈ میرر غائب ہیں تو بعض بسوں کے بمپرس اس طرح لٹک رہے ہیں جیسے کسی نے انہیں بڑی زور سے اکھاڑنے کی کوشش کی ہو ۔ ہیڈ لائٹس ، ٹیل لائٹس کا نہ ہونا ، ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی ہے اور 95 فیصد بسیں اس خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے ۔ کسی دور میں آر ٹی سی بسیں بہت صاف ستھری ہوا کرتی تھیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان بسوں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ واضح رہے کہ اے پی ایس آر ٹی سی تقریبا 22 قسم کی بسیں چلاتی ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے میٹننس پر توجہ اس لیے نہیں دی جارہی ہے کیوں کہ تلنگانہ اور آندھرا میں ان بسوں کی تقسیم عمل میں آئے گی ۔ آر ٹی سی نے تقریبا 82 سالہ اپنے طویل سفر کے دوران بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ۔ حکومت تلنگانہ اور حکومت آندھرا پردیش کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے بسوں کی حالت سدھاریں صرف آرام دہ ، محفوظ ، صاف ستھری اور واجبی شرح ٹکٹ کے دعوؤں سے مسافرین کو متاثر نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اے پی ایس آر ٹی سی کی بسوں کو ماحول دوست بنایا جائے تاکہ شہریوں کو فضائی آلودگی سے محفوظ رکھا جاسکے ۔ قارئین آپ کو بتادیں کہ 11 جنوری 1958 تک اے پی ایس آر ٹی سی ، نظام اسٹیٹ ریل اینڈ روڈ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے ہی جانا جاتاتھا لیکن بعد میں اسے روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن ایکٹ کے تحت اے پی ایس آر ٹی سی کا نام دیا گیا ۔ حضور نظام کے قائم کردہ اس کارپوریشن کو ہندوستان میں سب سے پہلے قومیانے ، سب سے پہلے نائٹ سرویس شروع کرنے سب سے پہلے اے سی سلیپر ، ہائی ٹیک میٹرو لائنر ، بین ریاستی سرویس اور میٹرو ایکسپریس شروع کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ بہر حال اب دیکھنا ہے کہ 216 ڈپوٹس ، 23 ریجنس ، 7 زونس ، 7 زونل ورکشاپس ، 35 ڈسپنسریز اور ہاسپٹلوں ، 778 بس اسٹیشنوں ، 1881 بس شیلٹرس اور 22459 بسوں کی تقسیم کس طرح عمل میں آتی ہے ۔۔