آر بی آئی گورنر

مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اپنی حکمرانی کے دوران ریزرو بینک آف انڈیا کو سرکاری خزانہ سے زیادہ نہیں سمجھا ۔ اس لیے حکومت نے آر بی آئی سے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کرتے ہوئے مالیاتی بحران میں معیشت کو سنبھالنے والا ادارہ متصور کر کے غلطی کی ۔ نتیجہ میں معیشت میں گراوٹ درج کی گئی اور آر بی آئی ملک کے مالیاتی امور سے نمٹنے میں مرکز کی بیجا مداخلت کی وجہ سے کارکردگی کے معاملہ میں سست روی کا شکار ہوگیا ۔ حکومت اور آر بی آئی کے درمیان تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن مودی حکومت نے مالیاتی ادارہ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی جس سے گورنر کی حیثیت سے کام کرنے والی شخصیتوں پر بار گراں گذرنے لگا ۔ اُرجیت پٹیل نے گورنر آر بی آئی کی حیثیت سے استعفیٰ دے کر سب کچھ اشاروں میں بتادیا ہے کہ مودی حکومت نے ملک کے اہم مالیاتی ادارہ کے ساتھ کیا رویہ رکھا ہے ۔ حال ہی میں حکومت نے آر بی آئی کے دیگر گورنروں جیسے وائی وی ریڈی ، ڈی سبا راؤ اور رگھورام راجن کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا تھا مگر استعفیٰ کا فیصلہ اُرجیت پٹیل نے ہی کیا ۔ اب ان کی جگہ حکومت نے شکتی کانتا داس کو آر بی آئی گورنر مقرر کیا ہے وہ آر بی آئی کے 25 ویں گورنر ہوں گے ۔ انہوں نے سال 2015 اور 2017 کے دوران سکریٹری معاشی امور کے طور پر خدمت انجام دی ہے ۔ ان کا تعلق بھی آر بی آئی سے قریبی طور پر رہا ہے ۔ فی الحال وہ فینانس کمیشن آف انڈیا کے رکن اور جی 20 چوٹی کانفرنس میں حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کرچکے ہیں ۔ ان کے سامنے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اپنے پیشرو آر بی آئی گورنر کو درپیش چیلنجس سے نمٹتے ہوئے آر بی آئی کے تقاضوں کو پورا کرسکیں گے یا حکومت کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے آر بی آئی کو محض حکومت کا ذاتی خزانہ بنانے میں مدد کریں گے ۔ حکومت نے آر بی آئی پر اپنا تسلط بنائے رکھتے ہوئے یہ ثبوت تو دیدیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی مرضی کی مالیاتی پالیسی بنائے گی ۔ یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ مودی حکومت نے معاشی اصلاحات کے عمل کو پس پشت ڈالدیا ہے ۔ کم از کم آنے والے 2019 کے لوک سبھا انتخابات تک وہ معاشی اصلاحات کا عمل روک دے گی ۔ آر بی آئی کو اس وقت کئی مالیاتی رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔ نوٹ بندی کے بعد اس ملک کی چھوٹی صنعتوں پر برا اثر پڑا ہے ۔ آر بی آئی ہی ہے جو چھوٹے اور متوسط تاجروں کو بھی مالیاتی راحت دینے والی پالیسیاں وضع کرتی ہے مگر مودی حکومت آنے کے بعد سے چھوٹی اور متوسط صنعتوں اور تاجروں کو مالیاتی بحران لاحق ہوگیا ہے ۔ صرف بڑے صنعتکاروں کو مالیاتی چھوٹ حاصل ہے ۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ آر بی آئی اس کے اشاروں پر کام کرے جب کہ سابق معاشی مشیر اعلیٰ اروند سبرامنیم نے بھی آر بی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کردیا تھا ۔ مودی حکومت کے آخری مہینوں میں آر بی آئی پر ایسی پالیسیاں بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ان پالیسیوں اور اسکیمات سے بی جے پی کو 2019 کے انتخابات میں خاطر خواہ ووٹ حاصل ہوجائیں ۔ مقبول اسکیمات بناکر حکومت عوام کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کئے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے مودی حکومت اس مالیاتی بینک کو نئی مصیبت میں ڈالدے گی ۔ لہذا اُرجیت پٹیل نے آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے خود کو دور کرنے کے لیے ہی گورنر کے طور پر استعفیٰ دیدیا ۔ اس استعفیٰ کے لیے انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آر بی آئی میں خرابیاں ہیں بلکہ انہوں نے ذاتی وجوہات کا بہانہ کر کے استعفیٰ دیدیا ۔ دراصل ان کی شکایت زبان پر نہیں آسکی ۔ لیکن ان کے پیشرو گورنر رگھورام راجن نے اُرجیت پٹیل کے استعفیٰ کو ایک احتجاجی علامتی عمل سے تعبیر کیا کیوں کہ کوئی بھی گورنر حکومت کے اشاروں پر کام کرنے کے لیے اس وقت راضی نہیں ہوسکتا جب وہ اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرتے ہوئے بدنامی کا باعث ہونے والے کام کرنے کے لیے آر بی آئی گورنر پر دباؤ ڈالے ۔ حکومت نے آر بی آئی کی کارکردگی کے لیے مندرج اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من مانی کرنے کی کوشش کی لیکن اُرجیت پٹیل کے استعفیٰ نے حکومت کی خرابیوں کو آشکار کردیا ۔ اب نئے گورنر کے سامنے بڑے چیلنجس ہیں ۔