اب کس طرح سے راز چھپائے بھلا کوئی
ظاہر ہو دل کا حال خلوصِ بیان میں
آر ایس ایس کی کانفرنس
آر ایس ایس، بی جے پی کی سیاسی گرو اور پنڈت ہے جس کے اشاروں پر ہی حکمرانی کا لائحہ عمل قطعیت پاتا ہے۔ مرکز سے لیکر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مہاراشٹرا کی طرح گاؤکشی پر پابندی کے لئے زور دیتے ہوئے کانپور کانفرنس میں آر ایس ایس قائدین نے اپنے رام مندر مسئلہ کو زندہ رکھنے کا اعادہ کیا ہے۔ کانفرنس میں منظورہ قرارداد واضح طور پر مرکز کی مودی حکومت کے لئے فرمان ہے کہ مرکز کو کن باتوں پر عمل کرنا ہے اور کن سے گریز کرنا ہے لیکن آر ایس ایس ایسا معلوم ہوتا ہیکہ مودی حکومت کے لئے کامل گرو کا رول ادا نہیں کررہی ہے یا نریندر مودی نے آر ایس ایس کے سربراہوں کو اپنا گرو اور فرمانروا تسلیم کرنے سے پس و پیش کیا ہے۔ اقتدار کی لالچ اور زندگی کی مادیت میں غرق بی جے پی قائدین کی ایک بڑی تعداد آر ایس ایس کی باتوں کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔ جہاں تک رام مندر کا مسئلہ ہے یہ بی جے پی کے لئے فی الحال موضوع بحث نہیں ہے۔ مودی حکومت کو اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں تک بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ آر ایس ایس نے کارکردگی پر اپنا مہر لگانے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کے مسئلہ کو سڑکوں پر لانے سے گریز کرتے ہوئے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری سریش بھیا جی نے کہا کہ رام مندر کے مسئلہ کا فیصلہ عدالت سے حاصل کیا جائے گا اور انہیں توقع ہیکہ عدالت ملک کے ہندوؤں کے جذبہ کا احترام کرتے ہوئے ہی فیصلہ سنائے گی۔ آر ایس ایس نے فی الحال مودی حکومت کو کسی دباؤ کا شکار بنانے سے گریز کیا ہے۔ اس لئے رام مندر کے مسئلہ پر کل تک شدت کا مظاہرہ کرنے والی آر ایس ایس خاموش ہوچکی ہے۔ اس طرح مودی حکومت کو اپنے متنازعہ ریمارکس اور گھر واپسی جیسے پروگراموں کے ذریعہ پریشان کرنے سے بھی گریز کیا ہے تو یہ بھی ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بھیا جوشی نے اپنی تنظیم کے محاذی گروپس کے اندر پیدا ہونے والی متضاد سوچ کو بھی نظرانداز کردیا ہے کیونکہ اقتدار پر رہنے والے سنگھ پریوار حامی اور تنظیم کی ذمہ داریاں نبھانے والے قائدین کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے۔ برسراقتدار آر ایس ایس حامی قائدین نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھیوں کے من مانی بیانات سے ان کے سیاسی کیریئر کو دھکہ پہنچے اس لئے انہوں نے مرکز میں حکمرانی کے فرائض انجام دینے کیلئے سنگھ پریوار کے کٹر پسندانہ نظریہ کو بالائے طاق رکھا ہے۔ نریندر مودی کی 4 ماہ پرانی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے سے زیادہ آر ایس ایس کو اپنے کیڈر کی تیاری اور اس کیڈر کو مخالف مسلم فورس کے طور پر تیار کرنے کی اندرون کوشش ہورہی ہے۔ گذشتہ 9 ماہ کی مودی حکومت کی کارکردگی کی ستائش کرنا آسان ہے مگر اس کی بنیادی غلطیوں کا نوٹ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ملک کو درپیش چیلنجس کی جانب توجہ دینے کے بجائے آر ایس ایس نے اپنی ناگپور کانفرنس کو حسب روایت دشمن پیدا کرنے والی سوچ کو فروغ دینے کا اڈہ کے طور پر استعمال کیا۔ مرکز کی مودی حکومت کی خفیہ سرپرستی کرنے والی آر ایس ایس کو ملک کی داخلی سلامتی اور خارجی خطرات سے زیادہ اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو روبہ عمل لانے کی فکر ہے۔ آر ایس ایس کی اس کانفرنس کا یہ عزم واضح ہوچکا ہے۔ وہ مودی حکومت کی سرپرستی کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو روبہ عمل لائے گی۔ سیاسی خوابوں کے جزیرہ پر بیٹھی آر ایس ایس حکومت کے حالات سے بے خبر ہے کہ مودی حکومت نے بجٹ پیش کرکے ملک کی معیشت کی ابتری کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بجٹ کے پیچ و خم کے راز کو معلوم کئے بغیر ہی آر ایس ایس نے مودی حکومت کیلئے اپنے فرمان میں کئی ہدایات بھی دی ہیں۔ جو حکمراں اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو وہ کسی کے خوابوں کی تعبیر کیلئے اپنے سیاسی ویژن و قوت کار کا ثبوت دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ فرقہ پرستی کو ہوا دینے والی اس تنظیم کے خلاف محاذ تیار کرنے کیلئے ملک کی کسی بھی سیکولر پارٹی نے اپنے قوت ارادی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ جو تنظیم اپنے اسکولوں کے قیام کے ذریعہ نوخیز ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کررہی ہے اس کے جواب میں سیکولر فورس کو اپنا رول ادا کرنے میں تاخیر کا مطلب ہندوستان میں فرقہ پرستوں کی جڑوں کو مضبوط بنانے کا موقع دینا ہے۔ آر ایس ایس نے تعلیم کو مادری زبان سے مربوط کرنے کا مشورہ دیا ہے تو اس کی اصل وجہ ہر علاقہ، ہر زبان کے افراد تک اپنے زہریلے ایجنڈہ کو پہنچانا ہے۔