مرکز میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں نظم و نسق اور سماجی معاملات میں آر ایس ایس نے اپنی متوازی حکومت چلانی شروع کردی ہے ۔ ملک کے دفاعی ‘ داخلی ‘ معاشی اور بیرونی نظام پر بھلے ہی نریندر مودی اور ان کی کابینہ کام کر رہے ہوں لیکن وہاں بھی آر ایس ایس کے نظریات و احساسات کا برابر خیال رکھا جا رہا ہے لیکن جہاں تک ملک میں نظم و نسق اور سماجی معاملات کا تعلق ہے ایسا لگتا ہے یہاں آر ایس ایس کو نریندر مودی حکومت پر بھی سبقت حاصل ہوگئی ہے ۔ سماج میں کیا ہونا چاہئے کیا نہیں ہونا چاہئے ‘ کسے کیا کھانا چاہئے کسے کیا نہیں کھانا چاہئے ‘ کسے کہاں کب قومی پرچم لہرانا چاہئے ‘ اسکولس اور کالجس میں کیا کچھ پڑھایا جانا چاہئے ۔ تعلیمی ادارے کس انداز میں کام کرنے چاہئیں ‘ ان کی نگرانی کرنیو الے کون ہونگے ‘ تعلیمی اداروں کیلئے آئندہ ربع صدی کیلئے ایکشن پلان یا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے ‘ تعلیم کو ایک مخصوص ڈھنگ میںکس طرح سے ڈھالا جانا چاہئے اور تاریخ کے واقعات کو کس طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کیا جانا چاہئے یہ سب کچھ آر ایس ایس کی جانب سے پوری آزادی سے چلایا جا رہا ہے اور عملی طور پر یہ تاثر مل رہا ہے کہ آر ایس ایس کو یہ سب کچھ کرنے کا قلمدان غیر سرکاری طور پر سونپ دیا گیا ہے اور حکومت خود ان سارے معاملات سے بری الذمہ ہوگئی ہے ۔ ایسا تاثر بھی مل رہا ہے کہ آر ایس ایس نے مخصوص شعبہ جات کو اپنے مزاج اور مرضی سے چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس میں خود حکومت کو بھی زیادہ کچھ عمل دخل کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔ صرف سرکاری سطح پر اس کی حیثیت منوانے کیلئے حکومت کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ آر ایس ایس کی جانب سے راست یا بالواسطہ طور پر ایسے بیانات دئے جا رہے ہیں جن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اس ملک میں صرف ہندو ہیں اور ہندووں کیلئے ہی سب کچھ ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے یا دوسرے فرقوں کے لوگوں کیلئے ملک میں کوئی جگہ نہیںہے ۔ اگر انہیں جگہ دی بھی جاتی ہے تو یہ ہندووں کی شرائط پر ملے گی اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنا ہوگا ۔ اس صورتحال کو جو لوگ تسلیم نہیں کرتے انہیں پھر مسائل کا شکار کیا جاسکتا ہے ۔
ہندوستان ‘ ہندووں کیلئے ہے اور تمام ہندوستانی ہندو ہیں کے ریمارکس کے بعد اب آر ایس ایس نے دینی مدارس سے خواہش کی ہے کہ وہ یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی پرچم لہرائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آرا یس ایس کب دینی مدارس میں بھی مداخلت چاہتی ہے ۔ دینی مدارس کیلئے آر ایس ایس کی کسی ہدایت یا کسی خواہش کی ضرورت نہیں ہے ۔ جہاں تک دینی مدارس کا سوال ہے یہ تاریخ ہے کہ دینی مدارس نے ملک کی جدوجہد آزادی میں انتہائی اہم رول ادا کیا تھا ۔ دینی مدارس کے طلبا نے بھی جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور اس جدوجہد کو استحکام بخشا تھا ۔ دینی مدارس کے طلبا اور لاکھوں کی تعداد میں علما کرام نے جدوجہد آزادی میں عملی قربانیاں پیش کیں ۔ ان کی قربانیوں کی مثال ملنی مشکل ہے جبکہ آر ایس ایس کا ملک کی جدوجہد آزادی میں کیا رول رہا ہے اس کی وضاحت شائد خود آر ایس ایس بھی نہیں کر پائے ۔ غلامی کے دور میں انگریزی سامراج سے دوستیاں گانٹھنے والے اور ان کیلئے با اجرت کام کرنے والے اگر آج ہندوستان کے مسلمانوں کو حب الوطنی کے مشورے دینے لگیں اور ان سے ثبوت طلب کرنے لگیں تو انتہائی افسوس کا مقام ہوگا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اور ملک کے دینی مدارس کی ایک ایسی تاریخ ہے جس کی مثال شائد ہی کوئی پیش کرسکے ۔ نہ صرف جدوجہد آزادی بلکہ آزادی کے بعد سے بھی شائد ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جس میں ہندوستانی مسلمان دیگر ابنائے وطن سے پیچھے رہے ہوں۔ سرحدات کی حفاظت سے لے کر ملک کو دفاعی شعبہ میں خود مکتفی بنانے تک مسلمانوں نے اپنا ذمہ نبھایا ہے ۔
آر ایس ایس یا اس کیلئے کام کرنے والی دوسری تنظیمیں یا ادارے ایسی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتے ۔ اپنے تبصروں اور ریمارکس کے ذریعہ ہندوستان کے پرامن عوام اور سماج میں نفرت پیدا کرنے کی مثالیں تو پیش کی جاسکتی ہیں لیکن ملک کی خدمت کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔ دینی مدارس کو کیا کرنا چاہئے یا کیا نہیں کرنا چاہئے اس کا مشورہ آر ایس ایس کو دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دینی مدارس اور مدارس کے انتظامیہ اور طلبا اچھی طرح جانتے ہیںکہ ان کی دستوری ‘ قانونی اور سماجی و قومی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں کس طرح سے نبھانی چاہئیں۔ آر ایس ایس کو یہ سبھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کوئی حکومت نہیں ہے جو دوسروں کیلئے احکام جاری کرسکے ۔ بھلے ہی اسے حکومت سے چھوٹ ملی ہو لیکن ملک کے آئین نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی ہے ۔