میں یہی پوچھتا رہتا ہوں، زمانے بھر سے
جن کی تقدیر بگڑجائے وہ کیا کرتے ہیں
آرڈیننس کی منظوری
نریندر مودی حکومت اپنی متواتر سیاسی کامیابی پر فاتحانہ غرور کا شکار ہوکر پارلیمنٹ کو کنارہ کش کردیا ہے۔ اس لئے آرڈیننس کی منظوری عمل میں لاتے ہوئے اپوزیشن کو بھی بری طرح نظرانداز کردیا۔ اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت کی ہٹ دھرمی کو روکنے میں ناکام ہوئی ہیں تو اب انہیں کسی غائبی طاقت کے اشارے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ حکومت کے من مانی آرڈیننس کی قانونی اہمیت و افادیت کا سوال اٹھا کر اس کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ نریندر مودی حکومت نے یہ سمجھ لیا ہیکہ اسے اقتدار مل گیا ہے تو وہ اب کبھی بھی نامراد نہیں ہوگی۔ اب ہندوستانی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ انہوں نے ووٹ دے کر جس روگ کو لگا لیا ہے۔ اس کے بے حد بھیانک نتائج بھی برآمد ہونے والے ہیں۔ ہندوستانی عوام بھی کبھی کبھی ایسی غلطی کرتے ہیں کہ وہ ہر راہ چلتے عطائی کو حکیم کا درجہ دے دیتی ہے۔ بی جے پی حکومت کو قومی پارٹی کا درجہ دینے کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اب یہ دکھائی دے رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران بی جے پی حکومت کسی بھی قانونی بل کو منظور کرانے میں ناکام رہی کیونکہ اپوزیشن نے حکومت کی من مانی چلنے نہیں دی تو وہ پارلیمانی سیشن کے ختم پر آرڈیننس کے ذریعہ اپنی مرضی عوام پر مسلط کرنے کی حماقت کررہی ہے۔ ملک کے اعلیٰ وکلاء ہریش سالوے شانتی بھوشن اور کے کے وینو گوپال کا کہنا درست ہیکہ انشورنس اور کوئلہ شعبہ میں ضرورت سے زیادہ اصلاحات لانے کیلئے آرڈیننس کی منظوری کی کوئی قانونی وقت نہیں ہے اور اپوزیشن کی نظر میں یہ اقدام اور اصلاحات پارلیمنٹ کو بالائے طاق رکھنا ہے۔ حکومت کی اس حرکت کی ایک سمجھدار طبقہ ہرگز حمایت نہیں کرسکتا۔ ایوان کی جانب سے مسترد کردہ بل یا قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہئے۔ حکومت کو اس پہلو کا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا اس کی من مانی کے قوم پر کیا مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں کیلئے مودی حکومت کی اس من مانی کا موضوع ہتھیار ہاتھ لگا ہے تو وہ عوام کے سامنے اس کے رموز و نکات پیش کرکے اصلاح کے عمل کی جانب قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ دستور کے تقدس کو اپنے یکطرفہ فیصلوں اور ہٹ دھرمی کے موقف کے تابع بنانے کی کوشش کو ہرگز پسند نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی قانون یا آرڈیننس کو اس وقت لایا جاتا ہے جب پارلیمنٹ کا کوئی سیشن نہیں ہوتا۔ مودی حکومت نے اپنے سرمائی سیشن کے دوران اس بل کو عملی شکل نہیں دیا اور پارلیمنٹ سیشن کے ختم ہوتے ہی آرڈیننس لایا جانا اپوزیشن کو یرغمال بنانے کے مترادف ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا رول عوام کے حق میں ضروری ہوتا ہے۔ بلوں یا قانون کو منظور کرانا منتخب پارلیمانی ارکان کا فریضہ ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہیکہ مودی حکومت نے ایوان کے تقدس کے ساتھ ارکان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا ہے تو وہ تشویشناک حد تک غرور کا شکار ہوچکی ہے۔ جب ملک میں کوئی طاقتور آواز موجود نہ ہو تو اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اپوزیشن متحد ہوکر بھی حکومت کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتی تو پھر اپوزیشن اپنی سیاسی غربت کا ماتم کرتی رہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ رہی ہیکہ اپوزیشن جب مضبوط ہوتی ہے تو عوامی مسائل کی یکسوئی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اب عوام نے ہی اپنی قسمت کی یکطرفہ طور پر ایسی طاقت کے سپرد کردی ہے جس کو صرف فرقہ پرستانہ نظریہ کو فروغ دینے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں آتا تو وہ شدید بے رحم استحصالی کلچر کو فروغ دے سکتی ہے۔ تاملناڈو کی پارٹیوں نے مودی حکومت پر تنقید کرنے کی کچھ ہمت دکھائی ہے۔ پی یم کے نے کوئلہ بلاک ہراج اور انشورنس شعبوں ایف ڈی آئی کی فیصد میں اضافہ کیلئے لائے گئے آرڈیننس کو جمہوریت کا قتل قرار دیا ہے۔ جب سے مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے ایسا معلوم ہوتا ہیکہ اسے بین الاقوامی کمپنیوں کے مفادات کو محفوظ رکھنے میں دلچسپی ہے۔ حکومت نے انشورنس شعبہ میں بیرونی راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے فیصد کو 26 سے بڑھا کر 49 کردیا ہے جبکہ یہ بل لوک سبھا میں 2008 سے زیرالتواء ہے۔ لوک سبھا کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام حکومت آرڈیننس کا سہارا لیتی ہے تو یہ اس کی دوہری اور غیرسنجیدہ پالیسی ہے کیونکہ 6 ماہ قبل ہی بی جے پی جب اپوزیشن میں تھی تو کانگریس کے اس ایف ڈی آئی مسئلہ پر احتجاج کیا تھا اور جب مسودہ پیش کیا گیا تو بی جے پی نے بحیثیت اپوزیشن مخالفت کی تھی۔ پارٹی کے لیڈر یشونت سنہا نے جو سابق وزیرفینانس بھی تھے کہا تھا کہ ایف ڈی آئی کی حد میں اضافہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب جبکہ بی جے پی نے خود حکومت بنائی ہے تو ایف ڈی آئی کو اہمیت دے کر آرڈیننس تک منظور کرالیا ہے تو یہ ناقابل فہم حرکت ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے کابینہ کے اس طرح کے فیصلوں کو آرڈیننس راج کا نام دیا ہے۔ بلاشبہ کانگریس اپوزیشن کی حیثیت سے مودی حکومت کی غلطیوں پر کان پکڑنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن وہ بھی دستوری و جمہوری اداروں کی افادیت کو کمزور کرنے والی پارٹی بی جے پی کی حرکتوں کو روکنے میں ناکام ہے۔ اب صدرجمہوریہ نے بھی آرڈیننس پر دستخط کئے ہیں انہیں اس طرح کے رجحان کو روکنے کی کوشش کرنی تھی تاکہ پارلیمانی کارکردگی پر کسی ایک طاقت کے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا جاسکے۔
آسام میں نسلی تشدد کا انسداد ضروری
آسام میں شورش پسندی کا سیاسی حل نکالنے میں ہونے والی کوتاہیوں کی وجہ سے ہی تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ آدی واسیوں کے مواضعات پر سلسلہ وار حملوں کیلئے ذمہ دار این ڈی ایف بی (ایس) کا پوری طرح صفایا کرنے کیلئے کئی اپوزیشن پارٹیوں نے مطالبہ کیا ہے۔ نسلی تشدد کے خطوط پر کچھ شورش پسند طاقتیں خون ریز حملے کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں بے گناہ معصوم افراد کا قتل عام ہوتا ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے حکومت نے بھوٹان سے مدد طلب کی ہے۔ اس تنظیم نے زیریں آسام میں 70 قبائیلی افراد کو ہلاک کیا ہے۔ بوڈو قبائیلی افراد خود کو آسام کی سرزمین کے اصل مکین سمجھتے ہیں انہیں آدی واسیوں کے وجود سے نفرت ہے جو زائد از 100 سال قبل ان کے علاقہ کو نقل مکانی کی ہے۔ ان افراد کی سیکوریٹی ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی و مرکزی حکومتیں سیکوریٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ریاستی حکومت کو اولین طور پر بین نسلی تشدد کو روکنے کو یقینی بنانا چاہئے لیکن جس سیاست میں نسلی مسئلہ کو استعمال کرنے کا رجحان ہوتا ہے وہاں انتخابات کے دوران ووٹ حاصل کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے متاثرہ علاقہ کا دورہ کرکے تشدد کو روکنے اور خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا جو غریب دیہی عوام اپنی زندگی گذارنے کے حق کے حصول کا انتظار کررہے ہیں انہیں ان کا حق دینے کیلئے وزارت داخلہ کو تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کرنا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ بوڈو انتہاء پسند ایک اور حملے کی تیاری کرکے بے قصور افراد کو موت کے گھاٹ اتار دے حکومت اور سیکوریٹی فورسیس کو زبردست کارروائی کرنی ہوگی۔