نئی دہلی، 29اگست (سیاست ڈاٹ کام) آرٹیکل 35(A)جموں وکشمیر کے لوگوں پر 1954سے لٹکتی دو دھاری تلوار ہے جسے اسی برس صدر کے ذریعہ 14مئی کو چیاپٹر ۔3میں شامل کیاجانا غیرقانونی اور غیرآئینی تھا۔ان خیالات کا اظہاراسٹیٹ لیگل ایڈ کمیٹی کے ایگزیکیوٹیو چیرمین اور سپریم کو رٹ کے سینئر وکیل پروفیسر بھیم سنگھ نے یہاں اسٹیٹ لیگل ایڈ کمیٹی کے ذریعہ منعقدہ وکلا برادری کی ایک ہنگامی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل 35(A)کے اثرات کے تعلق سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے رول پربھی حیرت کا اظہار کیا۔انہوں نے پارلیمنٹ اور حکومتوں کی ناکامی پر بھی حیرت کا اظہا کیا جو ہندستانی آئین میں دے ئے گئے بنیادی حقوق جموں وکشمیر میں رہنے والے ہندستانی شہریوں کو نہیں فراہم کراسکیں۔انہوں نے وکلا برادری کو بتایا کہ آرٹیکل گیارہ سے لیکر 35تک دیئے گئے بنیادی حقوق سے جموں وکشمیر میں رہنے والے ہندستانی شہریوں کو آرٹیکل 35(A)جوڑ کر 1954سے ہی محروم کردیا گیا اور اسے اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے اس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے مشورہ پر شامل کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ سب کیا گیا جموں وکشمیر حکومت کو آمرانہ ، غیرقانونی اور غیرآئینی طاقت فراہم کرنے کیلئے اور شیخ عبداللہ کو جیل میں رکھنے کیلئے۔ انہوں نے کہاکہ آئین ساز اسمبلی میں دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانت اور ہندستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ محفوظ بنیادی حقوق کے جموں وکشمیر میں کوئی معنی نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 35(A)کا اسٹیٹ سبجیکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔پروفیسربھیم سنگھ نے جموں وکشمیر کے دانشوروں خاص طورپر وکلا برادری سے جموں وکشمیر کے عوام مخالف، شہری مخالف آرٹیکل 35(A)پر کھلی بحث میں حصہ لینے کی اپیل کی۔