آج مہلت کا اختتام

محفل ناز میں ہلچل تھی کہ وہ آتے ہیں
آپ جب آئے چراغوں میں اُجالا نہ رہا
آج مہلت کا اختتام
وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں 1000 اور 500 روپئے کے کرنسی نوٹوں کو بندکرنے کا جو اعلان کیا تھا اس کے بعد عوام کو یہ نوٹ بینکوں میں جمع کروانے کیلئے دی گئی مہلت آج ختم ہور ہی ہے ۔ 30 ڈسمبر تک عوام کو یہ رقومات اپنے بینک کھاتوں میں جمع کروانے کیلئے مہلت دی گئی تھی ۔ اس کے بعد بھی حالانکہ یہ کرنسی نوٹ مارچ کے اختتام تک جمع کروائے جاسکتے ہیں لیکن اس کیلئے عوام کو ریزرو بینک کو جانا ہوگا ۔ وہاں کیا شرائط ہونگی اور کس طریقہ کار کوا ختیار کیا جائیگا ابھی اس تعلق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن 8 نومبر کو نوٹ بندی کے اعلان کے بعد سے 30 ڈسمبر تک کی جو مہلت تھی وہ ختم ہو رہی ہے اور ابھی تک بھی ملک کے عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔ وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے اعلان کے بعد دورہ جاپان سے واپس ہوکر گوا میں خطاب کرتے ہوئے عوام سے کہا تھا کہ جو مشکلات پیش آ رہی ہیں وہ پچاس دن کی ہیں اور ملک کے عوام حالات کو بہتر بنانے کیلئے انہیں 50 دن کا وقت دیں۔ وہ پچاس دن بھی اب ختم ہوگئے ہیں۔ بینکوںمیں نہ رقومات پہونچ پا رہی ہیں اور نہ بینکوں سے عوام کو یہ رقومات حاصل ہو رہی ہیں۔ اے ٹی ایمس کا حال اور بھی برا ہے ۔ پہلے تو کئی اے ٹی ایمس نئے کرنسی نوٹوں کی مطابقت میں ڈھالے نہیں گئے ہیں اور جہاں کہیں کرنسی ڈالی جا رہی ہے وہاں بھی عوام کی جانب سے رقم نکالنے پر پابندیاں برقرار ہیں۔ کئی مشینوں میں ہفتے میںایک آدھ مرتبہ رقم ڈالی جا رہی ہے ۔ کئی مشین مہینے بھر سے خالی پڑے ہیں اور ان کو کارکرد بنانے کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ حکومت اور اس کے نمائندے مسلسل یہ دعوی کرتے آ رہے ہیں کہ عوام کو نوٹ بندی کی وجہ سے زیادہ مشکلات پیش نہیں آ رہی ہیں اور ملک کے عوام نے ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر اس فیصلے کی تائید کی ہے ۔ اگر واقعی حکومت کے اس فیصلے کی عوام نے تائید کی ہے تو حکومت کا بھی یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ عوام کو راحت پہونچانے کیلئے فوری طور پر اقدامات کرے ۔ انہیں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں انہیں دور کرنے کیلئے ایسا اعلان کیا جائے جس کی وجہ سے انہیں واقعی راحت مل سکے اور ان کے کام کاج جو بند ہیں انہیں دوبارہ بحال کیا جاسکے ۔
گذشتہ پچاس دن سے زائد عرصہ میں حکومت نے جو کچھ بھی اقدامات کئے ہیں وہ عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہی بنے ہیں۔ پہلے کرنسی نکالنے کی حد کا تعین کیا گیا ۔ بعد میں ان شرائط میں تبدیلیاں کی گئیں۔ رقومات جمع کروانے کے معاملہ میں بھی نت نئے اعلانات کرتے ہوئے حکومت نے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ گذشتہ پچاس دن میں حکومت نے عوام کو راحت فراہم کرنے کے اقدامات کرنے کی بجائے جو اشارے دئے ہیں وہ عوام کی مشکلات میں اضافہ سے متعلق ہی ہیں۔ حکومت منسوخ شدہ کرنسی کو اس کی قدر کے مطابق بازاروں میں لانے کی بجائے کیش لیس سوسائیٹی کی تشکیل کے اقدامات میں جٹ گئی ہے ۔ آن لائین ادائیگیوں اور کارڈز کے ذریعہ ادائیگی پر حکومت کا زور چل رہا ہے ۔ اس کیلئے عوام میں باضابطہ طور پر مہم چلائی جا رہی ہے ۔ کالا دھن اور رشوت ختم کرنے کے نام پر عوام کو الجھن کا شکار کردیا گیا ہے ۔ انہیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی رقومات جمع تھیں وہ سب کالا دھن تھیں۔ واقعتا جن کے پاس کالا دھن ہے ان پر تو شائد حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہوا ہو لیکن عوام اس سارے معاملہ میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ انہیں فوری طور پر حکومت کی جانب سے کوئی راحت بھی ملتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔
حکومت کو یہ اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے فیصلے سے عوام کو مشکلات پیش آئی ہیں۔ چھوٹے کاروبارمتاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ بڑی فیکٹریاں بند ہونے کے قریب پہونچ گئی ہیں۔ ہزاروں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کی زندگیوں پر غیر یقینی کیفیت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ کیش لیس معاملتوں کی وجہ سے جو تجارتی سرگرمیاں تھیں وہ ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان سب حالات کا ملک کی معیشت پر اثر ہونا لازمی ہے اورا س کی وجہ سے جملہ گھریلو پیداوار بھی متاثر ہوکر رہ جائیگی ۔ مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندرمودی کو اس سارے معاملہ کا کسی تحفظ ذہنی کے بغیر جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور عوام کی مشکلات اور مصائب کو ختم کرنے کیلئے سیاسی انا سے بالاتر ہوکر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم کے طلب کردہ پچاس دن بھی اب پورے ہوگئے ہیں اور اب کم از کم حکومت کو عوام کو مشکلات سے باہر نکالنے اور راحت دینے کیلئے اقدامات کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے ۔