نئی دہلی 16 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام) علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کا مسئلہ کل سے شروع ہونے والے کل ہند کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں موضوع بحث بن سکتا ہے کیونکہ کانگریس کے سیما آندھرا علاقوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کل ہند کانگریس کے اجلاس کے باہر دھرنا منظم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر اجلاس میں شرکت کا انہیں موقع نہ دیا گیا تو پارٹی قائدین اجلاس کے مقام پر دھرنا منظم کرینگے ۔ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک سرگرم رکن پارلیمنٹ نے بتایا کہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے چھ ارکان پارلیمنٹ وی ارون کمار ‘ سبم ہری ‘ رائے پاٹی سامبا شیوا راؤ ‘ سائی پرتاپ ‘ ہرش کمار اور ایل راجگوپال کو کل ہند کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ رکن پارلیمنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی قیادت نے ان ارکان پارلیمنٹ کو اجلاس میں داخلہ کی اجازت نہ دینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ غیر جمہوری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی نوٹس دئے بغیر ان ایم پیز کو داخلہ پاسیس کی اجرائی سے گریز کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ جمہوری پارٹی ہے ؟ ۔
وہ اس طرح سے کیسے کرسکتے ہیں۔ یہ غیر جمہوری ہے ۔ انہوں نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے ۔ رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ اگر پارٹی قیادت انہیں داخلہ پاسیس کی اجرائی کے مسئلہ کو حل نہ کرے تو وہ تالکٹورہ اسٹیڈیم کے باہر دھرنا منظم کرینگے ۔ تالکٹورہ اسٹیڈیم میں کل ہند کانگریس کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے ۔ پارٹی کی جانب سے اس مسئلہ پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ اطلاعات چل رہی تھیں کہ کل ہند کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں تلنگانہ مسئلہ پر ہنگامہ ہوسکتا ہے ۔ انہیں اطلاعات کی بنیاد پر سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ کو اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ یہ اجلاس کانگریس ورکنگ کمیٹی کی جانب سے تلنگانہ کے حق میں قرار داد کی منظوری کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہا ہے ۔ وجئے واڑہ کے رکن پارلیمنٹ ایل راجگوپال نے تو اے آئی سی سی اجلاس میں تقسیم ریاست آندھرا پردیش کے خلاف ایک قرار داد پیش کرنے کی بھی مرکزی قیادت سے اجازت طلب کی تھی ۔ پارٹی جنرل سکریٹری اور تنظیمی امور کے نگران مسٹر جناردھن دویدی کے نام دو دن قبل ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے ایل راجگوپال نے کہا تھا کہ پارٹی کو 2009 میں اس فیصلے کے خلاف عوام کی تائید حاصل ہوئی تھی اور اگر عوامی رائے اور خواہشات کے برخلاف اگر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوگا ۔ کوئی غیر سرکاری قرار داد منظور کرنے پارٹی کے دستور کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی مفاد میں ہم ریاستوں کی مزید تقسیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیںکہ 30 جولائی 2013 کو تلنگانہ ریاست کی تشکیل کی جو قرار داد منظور کی گئی ہے اس کو واپس لیا جائے اور نئی ریاست تشکیل دینے دستور میں جو طریقہ کار کی گنجائش ہے اس کے مطابق کوئی فیصلہ کیا جائے ۔ آندھرا پردیش میں کانگریس پارٹی عملا علاقائی خطوط پر تقسیم ہوگئی ہے اور دوسری جماعتیں بھی تلنگانہ مسئلہ پر مشکل حالات کا شکار ہیں۔ آندھرا پردیش ملک کی وہ واحد بڑی ریاست ہے جہاں کانگریس گذشتہ 10 سال سے کسی اور جماعت کی تائید کے بغیر اقتدار پر ہے اور وہاں سے اس کے زیادہ تعداد میں ارکان پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے ہیں۔