مولانا محمد محبوب عالم اشرفی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ دُنیوی ضروریات یعنی کھانے پینے کی اشیاء اور رہنے سہنے کے لئے مکانات کی کوئی کمی نہیں تھی، مگر خدا کی شان دیکھئے کہ عرصۂ دراز تک آپ کے گھر میں کوئی فرزند تولد نہ ہوا، جب کہ آپ فرزند صالح کے متمنی تھے۔ بارگاہ رب العزت میں دعائیں مانگتے رہتے: ’’اے میرے رب! مجھے نیک بیٹا عطا فرما‘‘۔ درد مند دل اور اخلاص کے ساتھ نکلی ہوئی دعا باب اجابت سے ٹکرائی اور اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے اسے خوش خبری سنائی برد بار لڑکے کی‘‘۔ (الصافات۔۱۰۱)
دعا قبول ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری زوجہ محترمہ حضرت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن مبارک سے حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام تولد ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرضیٔ مولیٰ کے مطابق حضرت ہاجرہ اور شیر خوار حضرت اسماعیل علیہما السلام کو لے کر چلے اور جہاں آج خانۂ کعبہ اور چاہ زم زم ہے، اس غیر آباد مقام پر چھوڑ دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھجور کی ایک تھیلی اور پانی کا مشکیزہ حضرت سیدہ ہاجرہ کے سامنے رکھا اور ان کی طرف سے منہ پھیر کر اُلٹے قدم واپس ہونے لگے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام جانے لگے تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا: ’’اے حضرت ابراہیم! آپ ہمیں ایسی غیر آباد وادی میں چھوڑکر کہاں جا رہے ہیں؟، جہاں نہ انسان ہیں اور نہ کوئی مونس و غمخوار‘‘۔ پھر آپ نے پوچھا: ’’کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟‘‘ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ’’ہاں! خدائے تعالیٰ کا یہی حکم ہے‘‘۔ جب حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ جواب سنا تو فرمایا ’’اگر یہ خدا کا حکم ہے تو وہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں فرمائے گا‘‘ اور اپنی جگہ واپس آکر اطمینان و سکون سے بیٹھ گئیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واپس جانے کے بعد حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا چند روز تک مشکیزہ سے پانی پیتی رہیں، تھیلی سے کھجوریں کھاتی رہیں اور ننھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ نہ پانی رہا اور نہ کھجوریں۔ آپ سخت پریشان ہوئیں، یہاں تک کہ بھوک اور پیاس کی شدت سے دودھ بھی خشک ہو گیا اور بچے کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ بھوک اور پیاس کی شدت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام بے چین ہو اُٹھے۔ والدہ سے یہ منظر دیکھا نہ گیا تو وہ دوڑتے ہوئے قریب کی پہاڑی صفا پر گئیں کہ شاید کہیں پانی مل جائے، مگر وہاں پانی نہ مل سکا۔ پھر بچے کی محبت میں وادی میں اُتریں اور دوڑکر دوسری پہاڑی مروہ پر پہنچ گئیں، لیکن وہاں بھی پانی نہ مل سکا۔ اس طرح بے چینی اور بے قراری کے عالم میں آپ نے دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات مرتبہ چکر لگایا۔ جب ساتویں مرتبہ مروہ کی چوٹی پر پہنچیں تو جسم پسینے میں شرابور ہوچکا تھا۔ ابھی آپ بچے کے پاس پہنچنے کا ارادہ کر ہی رہی تھیں کہ دیکھا بچہ کے قریب ایک فرشتہ کھڑا ہے اور ننھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قریب پانی کا چشمہ اُبل رہا ہے۔ بے آب و گیاہ سرزمین پر اُبلنے والا وہی چشمہ ’’چاہِ زم زم‘‘ اور اس کا پانی ’’آب زم زم‘‘ کہلاتا ہے۔
حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خوب سیر ہوکر پانی پیا، جس سے آپ کا دودھ بھی جاری ہو گیا۔ اس کے بعد فرشتے (حضرت جبرئیل علیہ السلام) نے تسلی دی کہ ’’تم خوف نہ کرو کہ تم ضائع ہو جاؤ گی۔ بے شک یہاں بیت اللہ ہے، جس کی تعمیر یہ بچہ اور اس کے والد کریں گے اور اللہ تعالیٰ یہاں کے باشندوں کو ضائع نہیں فرمائے گا‘‘۔
اس ڈر سے کہیں پانی بہہ کر ضائع نہ ہو جائے، حضرت ہاجرہ پانی کے چاروں طرف بندھ بنانے لگیں، مگر پانی برابر اُبلتا رہا۔ آپ نے اُبلتے پانی کو مخاطب کرکے فرمایا ’’زم زم‘‘ یعنی ٹھہر جا، ٹھہرجا۔ اسی دوران قبیلۂ جرہم کی ایک جماعت شام کو جاتے ہوئے اس میدان کے زیریں حصہ سے گزری تو اس نے وادی میں پرندوں کو چکر لگاتا دیکھ کر سمجھ لیا کہ وہاں پانی ہے۔ پھر تصدیق کے بعد حضرت ہاجرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر قیام کی اجازت طلب کی۔ حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت تو دے دی، مگر چاہِ زم زم کو اپنی ملکیت میں رکھا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تاحیاتِ ظاہری خانۂ کعبہ کے متولی اور چاہِ زم زم کے مالک رہے۔
یقیناً آب زم زم اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے عظیم عطیہ ہے۔ حجاج کرام بڑے خوش نصیب ہیں، جو مکہ مکرمہ جاکر دیگر فیوض و برکات کے علاوہ آب زم زم سے بھی سیراب ہوتے ہیں۔ آب زم زم مسلمانوں کے نزدیک سب سے نفیس، سب سے بہتر، سب سے اعلیٰ اور انتہائی قابل احترام پانی ہے۔ آب زم زم کی فضیلت سے کسی بھی صاحب ایمان کو انکار نہیں ہوسکتا، کیونکہ متعدد احادیث کریمہ اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روئے زمین کے تمام پانیوں سے بہتر آب زم زم ہے‘‘۔ جامع صغیر میں ہے کہ ’’زم زم کا پانی اور جہنم کی آگ دونوں انسان کے شکم میں جمع نہیں ہوسکتے‘‘۔ دار قطنی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آب زم زم جس غرض سے پیا جائے، اس سے وہ غرض پورا ہوتا ہے۔ اگر تم شفاء کی نیت سے پیوگے تو اللہ تعالیٰ شفاء بخشے گا، اگر سیر ہونے کی غرض سے پیو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں سیراب کردے گا اور اگر پیاس بجھانے کے لئے پیو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پیاس دفع کردے گا‘‘۔