آباد ہے اِک تازہ جہاں حج کے عمل میں

حج کے لغوی معنی قصد و ارادہ کے ہیں، اصطلاح شریعت میں بیت اللہ شریف کا طواف، منٰی، وقوف عرفات و مزدلفہ، صفا مروہ کی سعی اور دیگر مناسک حج مقررہ ایام انجام دہی کا قصد و ارادہ کا نام ہے۔
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم، اساسی اور آخری رکن ہے۔ حج کے لئے اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کو مرکز اجتماع قرار دیا۔ یہ خدا کا وہ پہلا گھر ہے، جو اہل اسلام کے لئے قبلہ ٹھہرا۔ خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں ہے اور اس کی برکت سے اللہ تعالی نے اس کو باعث برکت و ہدایت قرار دیا۔ (سورۃ البقرہ۔۱۲۶)

مکہ مکرمہ کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے: ’’اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایسی وادی میں آباد کیا ہے، جہاں کوئی زرعی پیداوار نہیں ہے۔ یہاں ان کو بسانے کا مقصد نماز کو قائم کرنا ہے، لہذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انھیں کھانے کو پھل عطا کر، تاکہ وہ تیرا شکر ادا کرتے رہیں‘‘۔ (سورہ ابراہیم۔۳۷)
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا قبول فرمائی اور اعلان فرمادیا کہ ’’اللہ تعالی نے کعبہ کو حرمت والا گھر اور لوگوں کے لئے قیام کا مقام بنایا‘‘ (سورۃ المائدہ۔۹۷) نیز فرمایا ’’ہم بیت اللہ کو لوگوں کے لئے مرکز و امن بنایا اور ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو حکم دیا کہ وہ میرے گھر کا طواف کرنے اور رکوع و سجود کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۲۵)

حج کی حقیقت پر غور و خوض کیا جائے تو مختلف اسرار و رموز، مقاصد اور حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ عام طورپر نیاز مندی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک خادمانہ اور ایک عاشقانہ۔ پہلی قسم کی نیاز مندی کے لئے ضروری ہے کہ درباری لباس پہن کر بڑے ادب اور وقار سے مالک کے دربار میں حاضری دیں، تمام احکام و اوامر کی اطاعت کا اقرار کریں، ہاتھ باندھ کر حکم کے منتظر رہیں، جھک کر تعظیم بجالائیں، زمین پر عجز و نیاز کا ماتھا ٹیک کر آقا کی سربلندی و کبریائی کا اظہار کریں۔ یہی اجمالاً نماز کی حقیقت ہے۔ عاشقانہ نیاز مندی میں ضروری ہے کہ جس کی نسبت یقینی طورپر معلوم ہو کہ میرے محبوب کی عنایات اور توجہات کا مرکز ہے، وہاں دوڑا جائے۔ سر کے عمامے اور ٹوپی سے بے خبر، لباس سے بیگانہ، زیب و زینت سے بے پرواہ دیوانہ وار چلا جائے اور جس مقام کو محبوب نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، اس کے اطراف دیوانہ وار منڈلائے۔ اس کی یاد و تلاش میں جنگل جنگل، صحرا صحرا گھومتا پھرے۔ یہی اجمالی طورپر حج کی حقیقت کی ایک جہت ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ارکان اسلام کے اسرار پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حج کا حکم بھی فوائد و مصالح سے خالی نہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: ’’تاکہ وہ اپنے فائدوں کے لئے موجود رہیں‘‘ (سورۃ الحج۔۲۸) یہاں رضائے الہی اور روحانی ترقی کے علاوہ سیاسی، اقتصادی اور تمدنی فوائد کی طرف اشارہ ہے۔

Lady Evelyne اپنی کتاب Pilgrimage to Mecca میں لکھتا ہے: ’’حج کے اثرات اور نتائج میں مبالغہ کی گنجائش نہیں ہے، جو چار دانگ عالم سے آنے والے لوگوں کے اس زبردست اجتماع میں جو اس مبارک موقع اور مقدس مقام پر (جسے دنیا کے تین مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے جد امجد (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی یاد نے مقدس بنا دیا ہے) منعقد ہوتا ہے۔ شامل ہونے والوں کا خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالی کی تکبیر و تحمید کرنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان کے دل و دماغ پر اسلامی اصول و مقاصد کا مفہوم پورے طورپر نقش ہو جائے اور اسے سب سے زیادہ روح پرور عمل میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہو، جو انسان کو شاذ و نادر ہی نصیب ہوتا ہے۔ مولد اسلام کی یاد، اس زمین پر چلنا جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طویل دور ابتلاء اور مصائب کی یاد نے متبرک بنادیا ہے، قربانی، بذل النفس اور ایثار کے ان شاندار برسوں میں دوبارہ زندگی بسر کرنا اور اپنی روح کو اس آسمانی نور سے منور کرنا ہے، جس نے تمام کرۂ ارض پر اجالا کردیا تھا‘‘۔
حج اسلامی وحدت کا ذریعہ ہے، اس موقع پر اطراف عالم سے سیکڑوں قوموں اور ملکوں کے لاکھوں افراد ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز پر جمع ہوتے ہیں۔ ان کی شکلیں مختلف، رنگ مختلف، زبانیں مختلف اور لباس مختلف ہیں، لیکن یہاں پہنچتے ہی سب اپنا اپنا قومی لباس اتارکر ایک ہی طرز کا سادہ لباس پہن لیتے ہیں، سب کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے، سب ایک مرکز کے گرد گھومتے ہیں، سب ایک ساتھ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں، منٰی میں سب اکٹھے قیام کرتے ہیں، عرفات میں اکٹھا وقوف کرتے ہیں، مزدلفہ میں رات کو چھاؤنی ڈالی جاتی ہے، پھر سب ایک ساتھ منٰی کی طرف پلٹتے ہیں اور ان سارے کاموں میں ایسی یک دِلی، یکجہتی اور ہم آہنگی ہوتی ہے، جو اپنا اثر چھوڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔

پس اللہ تعالی کے پہلے گھر، عرب کے تاریخی میدان، ایک اعلی عہد کی یاد، بزرگوں کے نقوش قدم، ان کی دعا اور قبولیت دعا کے مقامات، تجلیات ربانی کے مناظر اور لاکھوں بندگان خدا کا ایک وحدت کے رنگ میں، خشک میدان اور جھلسی ہوئی پہاڑیوں کے دامن میں اکٹھے ہوکر دعا و مغفرت کی پکار اور یہ احساس کہ یہی وہ مقامات ہیں، جہاں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام اور لاکھوں فرزندان توحید اسی حالت میں، اسی صورت میں اور یہیں پر کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، نفسیاتی گداز اور جذباتی کیفیت پیدا کردیتا ہے، جس کی اجتماعی و انفرادی اور روحانی و معنوی افادیت سے انکار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو حج و زیارت کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسٓ۔
دینی انعامی مقابلہ کے صحیح جوابات
(۱) آیات ۴۲،۴۳ (۲) البقرہ ۱۵۲،۱۵۳
(۳) البقرہ ۲۵۵ (۴) آل عمران ۹۲
(۵) النساء ۲۹ (۶) النساء ۱۷۰
(۷) آیت۔ ۹۸ (۸) آیات ۱۶۲،۱۶۳
(۹) آیت نمبر ۱۲۶ (۱۰) آیت نمبر ۴۶
(۱۱) آیت نمبر ۱۲۸ (۱۲) سورۂ ہود ۲۳
(۱۳) آیت۔۶۷ (۱۴) سورہ الحجر ۹
(۱۵) سورۃ الکہف ۴۶ (۱۶) سورہ مریم ۵۵
(۱۷) آیت۔۳۳ (۱۸) المؤمنون ۱
(۱۹) الفرقان۔۷۴ (۲۰) النمل ۶۹
(۲۱) آیت نمبر ۵۷ (۲۲) سورہ الاحزاب ۵۶
(۲۳) سورہ یٰسین ۸۲،۸۳
(۲۴) سورۃ الزمر ۶۴ (۲۵) الشوریٰ۔۷
(۲۶) سورہ الحجرات ۱۰ (۲۷) سورہ الرحمن
(۲۸) سورۃ الصف (۲۹) سورۃ القلم