آئی ٹی ایکٹ دفعہ 66-A پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم

نئی دہلی۔/24مارچ، ( سیاست ڈاٹ کام ) ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے آج انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ66-A کو کالعدم قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ اس دفعہ کے تحت آن لائن پر جارحانہ تبصرہ کرنے کی پاداش میں سزائے قید ہوسکتی ہے تاہم کانگریس اس قانون میں بعض خامیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔ جنتا دل متحدہ لیڈر شرد یادو نے عدلیہ کے فیصلہ سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگرچیکہ عدلیہ قابل احترام ہے لیکن ایک اچھے قانون کو منسوخ کردینا غلط ہوگا کیونکہ اظہار خیال کی آزادی کا مطلب بیجا استعمال کی آزادی نہیں ہے جبکہ شیو سینا کا یہ تاثر ہے کہ سپریم کورٹ کے اقدام سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ کمزور ہوجائیں گے۔ بائیں بازو کی جماعتوں اور عام آدمی پارٹی نے عدالت میں اس مسئلہ پر یکساں مخالف جمہوری موقف اختیار کرنے کا بی جے پی اور کانگریس پر الزام عائد کیا۔ سابق مرکزی وزیر اور ماہر قانون مسٹر پی چدمبرم جو کہ سال 2008 میں متنازعہ قانون مدون کرتے وقت یو پی اے حکومت میں شامل تھے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66-A کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا کرتے ہوئے اسے غیر دستوری قرار دیا

اور بتایا کہ یہ ناقص طریقہ پر تیار کیا گیا اور بیجا استعمال کیا گیا۔ کانگریس لیڈر منیش تیواری نے کہا کہ سیکشن 66-A اظہار خیال کی آزادی پر ضرب کاری تھا کیونکہ سرکاری حکام اس قانون کا اندھا دھند طریقہ سے استعمال کررہے تھے اور یہ دفعہ حق آزادی کے مغائر تھی جس کی طمانیت آرٹیکل 19(2) میں دی گئی ہے۔ مسٹر منیش تیواری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مناسب فیصلہ کیاہے کیونکہ نفاذ قانون کے اداروں کو حد سے زیادہ اختیارات حاصل ہوگئے تھے جس کے باعث شہریوں کے حقوق پامال ہورہے تھے۔ بی جے پی ترجمان نلین کوہلی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارٹی اور نریندر مودی حکومت موقف کے عین مطابق ہے اگرچیکہ سرکاری وکیل نے آئی ٹی ایکٹ کے دفعہ 66-A کے دستوری جواز کی بھرپور مدافعت کی تھی۔

لیکن نریندر مودی حکومت نے اظہار خیال کی آزادی کا احترام بھی کرتی ہے اور وہ سوشیل میڈیا پر اپنے مخالفین کے خلاف امتناع کے حق میں نہیں ہے۔ دریں اثناء مرکزی وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی مسٹر روی شنکر پرساد نے کہا کہ نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت نے انتہائی احتیاط کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ متنازعہ ایکٹ پر پیشرو حکومت کے موقف کی تائید نہ کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اظہار خیال کی آزادی ، سوشیل میڈیا کے اختراعی واسطوں کا احترام کرتے ہیں اور دیانتدار مخالفین کی آزادی اور تنقیدوں پر قدغن لگانے کے حق میں نہیں ہیں۔عام آدمی پارٹی نے متنازعہ قانون پر بی جے پی کے بدلتے ہوئے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ واحد پارٹی تھی جس نے عدالت میں اس قانون کی شدید مخالفت کی تھی۔ پارٹی نے اس مسئلہ پر کانگریس کے دو رُخی موقف کی مذمت کی اور بتایا کہ جب وہ برسراقتدار تھی تو اس قانون کی مدافعت کی اور اب اپوزیشن میںہے تو مخالفت پر اُتر آئی ہے۔