آئی ایس آئی سے پریشان ہوکر یعقوب نے خود سپردگی کا فیصلہ لیا تھا

……  بی رمن کی زبانی  ۰۰۰   یعقوب میمن کی حقیقی کہانی   ……

یعقوب میمن پھانسی کا ہرگز مستحق نہیں تھا: بی رمن
فیصلہ سنائے جانے کے بعد میں اخلاقی اُلجھن میں پڑ گیا تھا

ممبئی۔/4اگسٹ، ( سیاست ڈاٹ کام ) یعقوب میمن کو جب ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی اس وقت انٹلیجنس کے سابق اعلیٰ عہدیداربی رمن کو ایک جھٹکہ سا لگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ایک ایسے شخص نے جس کا ان بم دھماکوں میں کوئی خاص رول نہیں رہا ہندوستانی انٹلیجنس ایجنسیوں کی بھرپورمدد کی، ہندوستان کے سب سے بڑے شمن دشمن ملک پاکستان کی جانب سے انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن کو پناہ دیئے جانے کو بے نقا کرکے رکھ دیا ، اور جس نے جیل میں یک طویل مدت گذار دی اُسے سزائے موت سے بچانے کی بجائے عدالت نے اسے سزائے موت سنادی۔ مسٹر بی رمن نے اپنے آرٹیکل میں یعقوب میمن کو سزائے موت سنائے جانے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ میڈیا کے توسط سے جب مجھے معلوم ہوا کہ عدالت نے یعقوب میمن کو سزائے موت سنائی ہے تب سے میں ایک عجیب اور غریب اخلاقی اُلجھن سے گذر رہا ہوں۔ میرے ذہن میں عدالتی فیصلہ پر کئی ایک سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد یعقوب میمن نے جس برہمی اور غصہ کا اظہار کیا اس کے پیچھے جو بھی وجہ تھی وہ یعقوب میمن اچھی طرح جانتا تھا ( مسٹر رمن کے کہنے کا مطلب شاید یہی تھا کہ ایک گناہ گار اپنے خلاف سزاء کے اعلان کے بعد کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کرتا لیکن یعقوب میمن نے جس طرح عدالت کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے،

وہ اس بات کا اشارہ تھے کہ یعقوب انٹلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ طئے معاہدہ سے انحراف اور اس کے ساتھ کی گئی دغا بازی پر برہم تھا )۔ یعقوب میمن مقدمہ کی ابتداء سے ہی یہ دعویٰ کررہا تھا کہ اسے قدیم دہلی سے گرفتار نہیں کیا گیا جیسا کہ استغاثہ دعویٰ کررہا ہے بلکہ اس کی کٹھمنڈو میں گرفتاری عمل میں آئی۔ استغاثہ نے یعقوب کے دعویٰ کو متنازع بتایا اور عدالت سے یعقوب میمن اور دیگر کو سخت سے سخت اور عبرتناک سزاء دینے کی اپیل کی چنانچہ عدالت نے بالآخر یعقوب میمن کو سزائے موت سنئی لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جن ملزمین کو سزائے موت سنائی جاتی ہے انہیں اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کرنے اور اپیل کے مسترد کئے جانے پر صدر جمہوریہ سے معافی کی درخواست کرنے کا حق حاصل ہے۔ بی رمن کے مطابق ’’ میں بار بار اپنے آپ سے یہ پوچھتا رہا کہ کیا مجھے یہ مضمون ضبطِ تحریر میں لانا چاہیئے یا نہیں؟

اگر میں یعقوب میمن کو دی گئی سزائے موت پر مضمون لکھوں تو پھر یہ میں اخلاقی طور پر ایک بزدل ہوں گا، میرے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ اگر میں مضمون تحریر کردوں تو کیا اس مقدمہ کی گتھی سلجھ جائے گی؟ کیا میری تحریر کے نتیجہ میں ایک بے قصور شخص پھانسی کے پھندے سے بچ جائے گا؟آیا میرے مضمون کو عدالت ایک منفی انداز میں دیکھے گی؟ آیا مضمون تحریری کرتے ہوئے کہیں میں تحقیر عدالت کا ارتکاب تو نہیں کررہا ہوں ؟ ان تمام سوالات کے باوجود میں نے اس یقین کے ساتھ مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا کہ ایک ایسے شخص کو پھانسی کے پھندے سے بچانا ضروری ہے جو میرے خیال میں سزائے موت یا پھانسی دیئے جانے کا ہرگز مستحق نہیں ہے، اور ایسے شخص کو بچانا بہت اہم ہے۔ ریسرچ اینڈ انالائس وِنگ (RAW) کے انسداد دہشت گردی ونگ کے ایک سربراہ کی حقیقت سے میں نے اس کیس میں مارچ 1993 اور 31اگسٹ 1994 میں میرے سبکدوش ہونے کے درمیان تحقیقات کے خارجی پہلوؤں سے نمٹا ہے۔ اہم بات یہ رہی کہ میں نے ریسرچ اینڈ انالائسس وِنگ کے بعض غیر معمولی فیلڈ آفیسروں نے ملکر ممبئی بم دھماکوں کے کیس  میں جو کام کیا اس کی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ ( اس وقت پی وی نرسمہا راؤ عہدہ وزارت پر فائز تھے ) نے زبردست ستائش کی۔انہوں نے تحقیقات میں ہمارے کردار کی ستائش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے سنہری الفاظ میں لکھا جانا چاہیئے۔ (سلسلہ صفحہ 5 پر)

 

مجھے اس بات پر بہت زیادہ ذہنی تکلیف ہوئی ہے کہ ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمہ کی سماعت کے دوران یعقوب میمن اور اس کے خاندان کے بعض ارکان کے بارے میں استغاثہ نے ایسے کافی اہم حقائق پیش نہیں کئے جس کا اس مقدمہ پر غیر معمولی اثر پڑسکتا تھا اور عدالت اگر ان حقائق کا نوٹ لیتی تو شاید فیصلہ بھی مختلف ہوتا۔ اس کیس میں ایسا لگ رہا تھا جیسے استغاثہ یعقوب اور اس کے ارکان خاندان کو سزائے موت دلانے بے چین ہیں یہی وجہ تھی کہ اہم حقائق پر روشنی نہیں ڈالی گئی، اسے عدالت سے چھپایا گیا۔‘‘ اپنے مضمون میں مسٹر بی رمن نے ممبئی پولیس، سنٹرل بیورو آف انوسٹگیشن کے عہدیداروں کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے انٹلیجنس بیورو کی جانب سے لی گئی زبردست مدد کا بھی حوالہ دیا ہے اور کہا کہ قوم کو ان عہدیداروں پر فخر کرنا چاہیئے لیکن افسوس کہ بعض اہم حقائق کو عدالت کی نظروں میں نہیں لایا گیا۔ اگرچہ اس طرح کی دہشت گردی و بربریت کے مرتکبین سزائے موت کے مستحق ہوتے ہیں اس کے باوجود ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس میں اگر حقائق کو پیش کیا جاتا تو وہ ملزمین کیلئے سزائے موت پر زور دینے سے گریز کرتے۔

استغاثہ یہ کہنے میں درست ہے کہ یعقوب کی قدیم دہلی میں گرفتاری عمل میں آئی، ساتھ ہی  یعقوب کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ اُسے قدیم دہلی سے نہیں بلکہ کٹھمنڈو سے گرفتار کیا گیا۔ میری سبکدوشی کے چند ہفتے قبل اُسے کٹھمنڈو میں نیپالی پولیس کی مدد سے غیر رسمی طور پر حراست میں لے کر ایوی ایشن ریسرچ سنٹر کے ایک خصوصی طیارہ میں دہلی منتقل کیا گیا اور پھر قدیم دہلی میں اس کی باقاعدہ گرفتاری عمل میں آئی۔ یہ گرفتاری تحقیقاتی عہدیداروں نے کی تھی اور پھر اسے پوچھ گچھ کیلئے تحویل میں لیا گیا۔ یہ تمام کارروائی میری نگرانی میں ہوئی۔ یعقوب میمن خفیہ طور پر کراچی سے کٹھمنڈو آیا تھا تاکہ وہاں ایک رشتہ دار اور قانون داں کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا جاسکے۔ کراچی پاکستان سے نیپال میں قیام سے متعلق یعقوب اور میمن خاندان کے چند ارکان میں تذبذب اور اُلجھنیں پائی جاتی تھیں، انھیں اُلجھنوں کو دور کرنے اور وکیل رشتہ دار سے مشورہ کیلئے وہ پڑوسی ملک نیپال پہنچا تھا۔ یعقوب اور اس کے دیگر ارکان خاندان کو پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی سے کئی ایک پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ایسے میں ان کا احساس تھا کہ ہندوستان واپس ہوکر خود کو مممبئی پولیس کے حوالے کردیں  کٹھمنڈو میں یعقوب نے جس وکیل اور رشتہ دار سے ملاقات کی ان لوگوں نے انھیں خود سپردگی اختیار نہ کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ خدشات تھے کہ یعقوب اور میمن فیملی کے ساتھ انصاف نہیں کیا جائے گا چنانچہ ان دونوں نے یعقوب کو واپس کراچی چلے جانے کا مشورہ دیا۔

اس سے پہلے کہ وہ کراچی روانہ ہوتا شبہ کی بنیاد پر نیپال پولیس نے اسے حراست میں لے کر ہندوستانی انٹلیجنس ایجنسیوں کو آگاہ کیا جس کے ساتھ ہی یعقوب کی ہندوستان منتقلی عمل میں آئی۔ اس نے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ، یہی نہیں بلکہ کراچی میں آئی ایس آئی کے تحفظ میں رہے میمن فیملی کے چند ارکان کو کراچی سے دوبئی فرار ہونے اور پھر خود کو ہندوستانی حکام کے حوالے کردینے کی کامیاب ترغیب بھی دی۔ دوبئی میں جو کارروائی انجام دی گئی وہ دراصل ہماری شروع کردہ اصل کارروائی کا ایک حصہ تھی اور اس کارروائی کی نگرانی انٹلیجنس بیورو کے ایک سینئر عہدیدار نے کی جسے اس وقت وزارت اُمور خارجہ میں تعینات کیا گیا تھا۔ دوبئی میں کی گئی کارروائی میں میرا یا ریسرچ اینڈ انالائسیس وِنگ کے کسی عہدیدار کا کوئی رول نہیں رہا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ یعقوب میمن نے جو تعاون کیا اور میمن فیملی کے دوسرے ارکان کو خود سپردگی کی ترغیب دی اس کے بعد میرے خیال میں اس بات پر غور کرنے کے دوران کہ سزائے موت پر عمل آوری کی جانی چاہیئے یا نہیں مذکورہ حقائق کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیئے۔ یعقوب اور اس کے خاندان کے دوسرے ارکان کے اس سازش میں ملوث ہونے اور جولائی 1994ء تک آئی ایس آئی کی مدد کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اپنی خود سپردگی کے بعد اس نے جو رول ادا کیا ایسے میں وہ سزائے موت کا مستحق نہیں ہے۔