انسداد دہشت گردی عدالت میںایس ایس پی امتیاز حسین کا بیان ‘ ’ڈان‘ کی خبر
اسلام آباد۔2اگست ( سیاست ڈاٹ کام ) پاکستان کی مقتول وزیراعظم بے نظیربھٹو کو واضح طور پر ان کے قتل کئے جانے کے اندیشے کے بارے میں اُس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ نے ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کے دوران ان پر مہلک حملے سے کئی گھنٹے قبل انتباہ دیا تھا لیکن بے نظیربھٹو نے اس کی پرواہ کئے بغیرراولپنڈی میں ایک پُرہجوم انتخابی جلسہ سے 27ڈسمبر 2007ء سے لیاقت باغ میں مخاطب کیا تھا ۔ جس کے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ بھٹو کے اُس وقت کے سیکیورٹی آفیسر ایس ایس پی امتیاز حسین نے انسداد دہشت گردی اسکواڈ سے کہا کہ آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ندیم تاج اور ان کے نائب میجر جنرل احسان نے بے نظیربھٹو سے 26اور 27 ڈسمبر کی درمیانی شب ملاقات کی تھی ‘ تاکہ ان کے صیانتی انتظامات پر تبادلہ خیال کیا جاسکے ۔ ’ ڈان ‘ کی خبر کے بموجب ایس ایس پی کا بیان حال ہی میں انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی درج کیا گیا ہے ۔ امتیاز حسین نے کہا کہ لفٹننٹ جنرل آف تاج اور میجر جنرل احسان نے بے نظیربھٹو کو ترغیب دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ لیاقت باغ کے جلسہ عام سے خطاب نہ کریں ۔ سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ صیانتی محکمہ آئی ایس آئی سربراہ اور میجر جنرل احسان نے انہیں جان کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا تھا ۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کی ملاقات بھٹو سے چند گھنٹے جاری رہی تھی ۔ بے نظیر بھٹو سے کہا گیا تھا کہ فوج کو مختلف ذرائع سے بشمول ٹیلی فون پر بات چیت میں مداخلت کے ذریعہ اطلاع ملی ہے کہ خودکش بم بردار راولپنڈی میں داخل ہوچکے ہیں اور وہ جلسہ عام کے دوران اُس سے پہلے یا اس کے بعد ان پر حملہ کرسکتے ہیں ۔ امتیاز حسین نے جو استغاثہ کے گواہ ہے‘ اپنے بیان میں کہا کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں ہدایت دی تھی کہ ان کے ساتھ سفر کریں ۔ انہیں مسلح ہونا چاہیئے انہیں گاڑی کی اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنا چاہیئے ۔ ان پر اُس وقت حملہ ہوا جب کہ وہ اپنے حامیوں کے پارک کے باہر استقبال کا جواب دینے کیلئے اپنی گاڑی کی چھت کھول کر کھڑی ہورہی تھیں۔ ایس ایس پی نے جلسہ عام کے بعد جب وہ لیاقت روڈ پر تھے کہا کہ بے نظیربھٹو گاڑی میں گرپڑیں اور اُن کا خون خارج ہونے لگا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے نظیربھٹو دواخانہ پہنچنے سے پہلے زخموں سے جانبر نہ ہوسکیں ۔بے نظیربھٹو اپنے قتل سے پہلے دو میعادوں کیلئے پاکستان کی وزیراعظم رہ چکی تھیں اور قتل کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ تھیں ۔حکومت جنرل پرویز مشرف کی تھی جن پر اقتدار سے بے دخلی کے بعد بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کرکے مقدمہ دائر کیا گیا تھا ۔