حیدرآباد۔/3اکٹوبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کے شہریوں کو آنے والے گرما میں برقی کی سربراہی کے سلسلہ میں مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور برقی شعبہ کے عہدیداروں کے مطابق آنے والا موسم گرما اس دہے کا سب سے سخت ترین گرما ہوگا کیونکہ محکمہ برقی اپنے بحران کے سبب موثر انداز میں برقی سربراہی سے قاصر رہے گا۔ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے ہی اسے برقی کے شعبہ میں بحران کا سامنا ہے اور دن بہ دن برقی کٹوتی کے اوقات میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ دیہی علاقوں میں برقی کی سربراہی کا حال انتہائی ابتر ہے تو دوسری طرف شہری علاقے بھی اس صورتحال سے مستثنیٰ نہیں۔ شہری علاقوں میں فی الوقت 4گھنٹے برقی کٹوتی پر عمل کیا جارہا ہے تاہم اپریل سے 6گھنٹے کٹوتی کا امکان ہے کیونکہ زرعی سرگرمیوں کے تحت ربیع کی فصل کی تیاریاں عروج پر ہوں گی۔ برقی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فصلوں کو نقصان سے بچانے کیلئے صنعتی اور گھریلو صارفین کیلئے کٹوتی میں اضافہ پر غور کیا جارہا ہے اس کے باوجود زرعی شعبہ کیلئے برقی کی روزانہ 7گھنٹے سربراہی دشوار کن ہوگی۔ ریاست کی تقسیم کے بعد سے تلنگانہ برقی کی پیداوار کے سلسلہ میں مسائل کا شکار ہے اور طلب اور پیداوار میں کافی فرق ہے۔ تلنگانہ حکومت نے مرکزی حکومت سے این ٹی پی سی کے تحت برقی کے حصول کی مساعی کی اس کے علاوہ پڑوسی ریاستوں سے بھی برقی کی خریدی کے اقدامات کئے گئے لیکن یہ کوششیں ابھی تک سود مند ثابت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 800میگاواٹ برقی تیاری کے کرشنا پٹنم تھرمل پاور پلانٹ میں بہت جلد برقی کی تیاری کے آغاز سے حکومت کو امید بندھی ہے کہ برقی کے موجودہ بحران میں کمی ہوگی تاہم برقی شعبہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس سے تلنگانہ ریاست کو بہت کم فائدہ ہوگا۔آندھرا پردیش الکٹریسٹی ریگولیٹری کمیشن نے حال ہی میں کرشنا پٹنم پراجکٹ کے برقی خریدی معاہدات کو واپس کردیا تھا برقی خریدی کے معاہدہ کو نئے طور پر سنٹرل الیکٹریسٹی ریگولیٹری کمیشن کو پیش کرنا ہوگا تاہم آندھرا پردیش حکومت اس معاہدہ کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہے جس کے باعث اس پراجکٹ کے آغاز میں تاخیر کا امکان ہے۔ تلنگانہ حکومت نے نئے برقی پراجکٹس کے آغاز اور پڑوسی ریاستوں سے برقی کی تیاری کا منصوبہ تیار کرتے ہوئے آئندہ تین برسوں میں اس بحران پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ تین برسوں میں برقی کی پیداوار پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔600میگا واٹ کی صلاحیت والا بھوپال پلی پاور پراجکٹ آئندہ سال اگسٹ سے پیداوار کا آغاز کریگا۔ فی الوقت مختص مدتی پیداوار اور معاہدات کے تحت900میگا واٹ برقی حاصل ہورہی ہے تاہم یہ معاہدات آئندہ سال مئی میں ختم ہوجائیں گے۔سری سیلم لیفٹ بینک پاور ہاؤز تلنگانہ حکومت کیلئے امید کی آخری کرن ہے جہاں برقی کی پیداوار میں اضافہ سے تلنگانہ کی صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تلنگانہ ریاست کیلئے فی الوقت 6300میگاواٹ برقی کی ضرورت ہے اور موسم گرما کے دوران یہ بڑھ کر 7000میگا واٹ ہوجائے گی۔ تلنگانہ میں فی الوقت دستیاب برقی 510میگاواٹ ہے اور لوڈ ریلیف اور کٹوتی کے ذریعہ 1200میگاواٹ کی بچت کی جارہی ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں سرکاری طور پر اگرچہ دو وقفوں میں 4گھنٹے برقی کٹوتی کا اعلان کیا گیا لیکن غیر معلنہ طور پر 6گھنٹے سے زائد برقی کٹوتی پر عمل کیا جارہا ہے۔ اگر بحران کی یہی صورتحال رہی تو امکان ہے کہ حیدرآباد میں یہ کٹوتی بڑھ کر 8گھنٹے ہوجائے گی جبکہ ٹاؤنس اور میونسپلٹیز میں کٹوتی 12گھنٹے ہوسکتی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے برقی کے بحران سے نمٹنے کیلئے ہنگامی منصوبہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ربیع سیزن میں فصلوں کا تحفظ کیا جاسکے ساتھ ہی موسم گرما میں گھریلو صارفین کو گرمی کے اوقات میں برقی کی سربراہی عمل میں لائی جاسکے۔