گجرات اور یوپی میں سب سے زائد جائیدادیں، جرائم پر قابو پانے پولیس کا استحکام ضروری
نئی دہلی 3 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان میں 15 تا 29 سال گروپ کے ہر 1000 افراد میں 133 افراد ایسے ہیں جو بیروزگاری کا شکار ہیں۔ اس بات کا انکشاف وزارت لیبر کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے، لیکن غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے اور ملک میں بیروزگاری میں مہنگائی کی طرح اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ بی جے پی اور مودی نے عوام کو اچھے دنوں کے بڑے خواب دکھائے ، لیکن اب تک اچھے دنوں کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ غذائی اشیاء خاص طور پر سبزیاں اور میوے اس قدر مہنگے ہوگئے ہیں کہ عام آدمی سبزی خریدنے کے بھی موقف میں نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہمارے ملک میں مہنگائی بیروزگاری کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی کرنے کی مہم میں بھی شدت پیدا ہوگئی ہے۔ تعلیمی شعبہ کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا بڑے پیمانے پر آغاز کردیا گیا ہے۔ جہاں تک بیروزگاری کا سوال ہے، مرکزی حکومت نے آئندہ سال پولیس فورس میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مرکز کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ریاستوں میں کم از کم 5.5 لاکھ پولیس اہلکاروں کی بھرتیاں کی جائیں گی۔ اس طرح امید ہے کہ تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں مل سکیں گی۔ حکومت کے اس اقدام سے گجرات اور اترپردیش جیسی ریاستوں کے بیروزگار نوجوانوں کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لئے کہ ان ریاستوں میں بالترتیب ایک لاکھ اور 45 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہے۔ مرکزی معتمد داخلہ انیل گوسوامی نے 9 ستمبر کو تمام ریاستوں کے ریاستی چیف سکریٹریز اور پولیس سربراہان کے نام مکتوبات روانہ کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ آئندہ برس پولیس فورس میں مخلوعہ 5.48 لاکھ جائیداوں پر بھرتیوں کو یقینی بنائیں۔ اس لئے کہ پولیس فورس میں ملازمین کی قلت کے باعث لا اینڈ آرڈر مشنری موثر انداز میں کام کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ اس سے شہریوں میں عدم اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ پولیس فورس عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ معتمد داخلہ نے اپنے مکتوب میں پولیس ملازمت کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ پولیس اہلکار بحران اور خطرات کے موقع پر حکومت کا انتہائی سرگرم نمائندہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ کسی بھی خطرہ کا جواب دینے والا پہلا فرد بھی ہوتا ہے۔ مکتوب میں مسٹر گوسوامی نے لکھا ہے کہ سال 2013ء میں 26 لاکھ ایسے جرائم پیش آئے ہیں جو پولیس کے لئے قابل دست اندازی تھے۔ انہوں نے مکتوب میں بائیں بازو کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور خواتین سے متعلق جرائم کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ اس قسم کے جرائم کی بیخ کنی کے لئے پوری توجہ دینی پڑتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ معتمد داخلہ نے اپنے مکتوب میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کے فرقہ وارانہ پروپگنڈہ کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ حالانکہ ان فرقہ پرستوں کی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف زہریلی مہم کے نتیجہ میں ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے متاثر ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ ویسے بھی دیگر شعبوں کی بہ نسبت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں بالخصوص پولیس میں آبادی کے تناسب سے شہریوں کو نمائندگی دی جانی چاہئے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے اپنے مکتوب میں جہاں مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی کی ہدایت دی ہے وہیں پولیس کو جرائم کی شرح کے لحاظ سے خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مشورہ بھی دیا اور کہا کہ محکمہ پولیس کو موبائل اور آئی ٹی ایپلی کیشن کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے۔ شکایتوں کے آن لائن اندراج، الیکٹرانک ریکارڈ رکھنے کے نظام پر عمل کریں۔