آئندہ لالچ نہیں کروں گا …

بہت دن پہلے کی بات ہے، دریا کے کنارے مچھیروں کی ایک بستی آباد تھی۔ وہ صبح سویرے کشتیاں اور جال لے کر دریا میں چلے جاتے اور دن بھر مچھلیاں پکڑتے، شام کو انہیں بازار میں بیچ آتے، جو کچھ روکھی سوکھی ملتی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتے۔ اس بستی میں ایک مچھیرا، اومید بھی رہتا تھا، وہ بہت کام چور اور لالچی تھا۔ اکثر سوچتا کہ ایک ہی دن میں اتنی مچھلیاں پکڑ لے کہ کئی دن کام نہ کرنا پڑے۔
ایک دن جب وہ دریا میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا تو اس نے ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی‘ اتنی بڑی کہ اگر وہ اسے پکڑ لیتا تو مہینے بھر کی چھٹی ہوجاتی۔ وہ جھٹ دریا میں کود پڑا اور مچھلی کے پیچھے تیرنے لگا۔ مچھلی بہت تیز تھی، اومید کے ہاتھ نہ آئی‘ لیکن اومید نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ تیرتے تیرتے دریا میں بہت دُور نکل گیا، آخر کار اس نے مچھلی کو پکڑ لیا۔ اومید نے پلٹ کر دیکھا تو کنارا بہت دور تھا اور مچھلی کو ساتھ لے کر وہاں تک تیرنا بہت مشکل تھا۔ وہ بہت تھک چکا تھا، مگر اس پر لالچ سوار تھا۔ اس نے مچھلی کو نہیں چھوڑا اور دریا کے دھارے کے ساتھ تیرنے لگا۔ تیرتے تیرتے وہ ایک ایسے بھنور میں جا پھنسا جو بہت خطرناک تھا اور آج تک کوئی انسان وہاں سے زندہ بچ کر نہیں آیا تھا۔ وہ چیخنے لگا ’’ بچاؤ، بچاؤ، میں ڈوب رہا ہوں۔‘‘ اچانک ایک آدمی آیا اور اس نے اومید سے کہا’’ تم ایک لالچی آدمی ہو، تمہاری یہی سزا ہے کہ تم اس بھنور میں ڈوب جاؤ۔‘‘ اومید نے قسمیں کھا کھاکر کہا’’ مجھے یہاں سے نکالو، میں آئندہ لالچ نہیں کروں گا۔‘‘ اس آدمی نے اس کی قسم پر اعتبار کرتے ہوئے اسے بھنور سے نکال لیا۔ جان بچنے پر اومید نے شکر ادا کیا اور آئندہ لالچ سے بھی توبہ کرلی۔