ہوٹل میں تقریب رسم کے بعد لڑکے والوں کا موقف ، مجبور باپ کا شکوہ ،لڑکی کو بار بار دیکھنا کہاں کا انصاف ؟ ایک خاتون کا سوال
حیدرآباد ۔ 4 ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی لڑکیوں کی شادیاں خیر خوبی سے انجام پائیں ۔ انہیں اچھا سسرال ملے ، سسرالی رشتہ دار ایسے ہوں جو ان کی لڑکی سے اپنی بیٹیوں کی طرح محبت کریں ۔ غرض کوئی بھی والدین یہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتے کہ ان کی دختران ایسے گھرانوں میں جائیں جہاں بہوؤں کی کوئی عزت نہیں کی جاتی ۔ اپنی بیٹیوں کی ذرا سی تکلیف پر چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے اور بہو درد کے مارے چیخے تو اس کی آواز کو طعنوں و طشنوں میں دبا دیا جاتا ہے ۔ لڑکیوں کی شادیوں کے موقع پر لڑکی والے یہی دیکھتے ہیں کہ لڑکے والے اچھے ہوں ، ان میں دوسروں کے تئیں احترام کا جذبہ ہو اور وہ یہ سمجھیں کہ ان کے گھر میں بہو بن کر آنے والے لڑکی کسی کی لخت جگر بھی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں سیرت کی بجائے صورت ، تعلیم کی بجائے دولت ، خاندان کی بجائے شہرت اخلاق و کردار اور سلیقہ مندی کی بجائے خرچ کرنے کی سکت کو دیکھا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ منگنی کے باوجود بعض لڑکیوں کے رشتے صرف اس لیے توڑے جارہے ہیں کہ وہ جڑاوں بہنوں میں سے ہیں ۔ عقل کے ان اندھوں کو اس بات کا پتہ نہیں کہ اولاد کا دینا نہ دینا اکلوتی بیٹی یا بیٹا پیدا کرنا ، درجنوں بچے عطا کرنا ، جڑواں بچوں کے ذریعہ خوشیاں عطا کرنا یہ سب خدا کی قدرت ہی ہے ۔ حال ہی میں دفتر سیاست سے ایک وظیفہ یاب سرکاری عہدہ دار رجوع ہوئے اور بتایا کہ ان کی تعلیم یافتہ اور سلیقہ مند لڑکی کا رشتہ لڑکے والوں نے صرف اس لیے توڑ دیا کیوں کہ یہ لڑکی جڑواں بہنوں میں سے ایک ہے ۔ حالانکہ ان لوگوں کو بتایا گیا کہ اس لڑکی کے ساتھ جو جڑواں بہن پیدا ہوئی ہے اس کی شادی ہوچکی ہے اور وہ خوش حال زندگی گذار رہی ہے ۔ اس کے باوجود لڑکے والے اس بات پر بضد رہے کہ آپ لوگوں نے رشتہ طے ہونے سے قبل یہ نہیں بتایا کہ لڑکی جڑواں بہنوں میں سے ایک ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ انگریزی میڈیم سے بی ایس سی کرنے والی اپنی بیٹی کا رسم ان صاحب نے ایک ہوٹل کے بنکویٹ ہال میں کیا جس میں لڑکے والوں کے زائد از 120 لوگوں نے شرکت کی ۔ تقریب منگنی پر پچاس ہزار روپئے سے زائد کے مصارف آئے چونکہ لڑکا بی ٹیک ہے اور سعودی دارالحکومت ریاض کی ایک کمپنی میں ملازم ہے ۔ اس لیے ان صاحب نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس لڑکے سے طئے کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رشتہ طے ہونے سے قبل لڑکے والوں نے لڑکی کو اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو دکھایا پھوپی ، نانی ، مامی ، خالہ ، خالو ، ماموؤں وغیرہ نے کئی مرتبہ لڑکی کو دیکھا اور بالاخر رشتہ طے پایا ۔ منگنی کی تقریب جہاں حیدرآباد میں دھوم دھام سے کی گئی وہیں ریاض میں جہاں لڑکا ملازم ہے لڑکی کے بھائی نے خصوصی تقریب کا اہتمام کرتے ہوئے لڑکے ان کے بہن بہنوئی دوست احباب کو مدعو کیا ۔ اسطرح اس رسم پر حیدرآباد اور پھر ریاض میں بھی کافی خرچ کیا گیا تاہم رسم کے دوسرے دن ہی لڑکے والوں نے یہ کہتے ہوئے شادی سے انکار کردیا کہ لڑکی جڑواں بہنوں میں سے ایک ہے ۔ اس لیے ہم شادی نہیں کرسکتے ۔ اپنی بیٹی کا رسم ٹوٹ جانے پر ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری عہدہ دار اور ان کی باعزم بیٹی نے بارگاہ رب العزت میں سجدہ شکر بجالایا کہ اس نے مستقبل کے طعنے طشنوں اور ناروا سلوک سے انہیں بچالیا ورنہ شادی سے قبل اور منگنی کے فوری بعد جس طرح لڑکے والوں نے رویہ اختیار کیا اس سے محسوس ہورہا تھا کہ مستقبل میں وہ اچھے سسرالی رشتہ دار ثابت نہیں ہوسکتے ۔ واضح رہے کہ مذکورہ ریٹائرڈ اعلی عہدہ دار 5 لڑکیوں اور دو لڑکوں کے باپ ہیں ۔ انہوں نے اپنی 4 لڑکیوں کی شادیاں کی ہیں اور یہ پانچویں لڑکی تھی جس کی شادی کررہے تھے لیکن منگنی کے موقع پر ہی لڑکے والوں نے اپنا حقیقی چہرہ دکھایا اور منگنی ٹوٹ گئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ میں توہم پرستی کی جو فکر و سوچ ہے وہ ختم ہوجائے ۔
یہ تو جڑواں لڑکی کے منگنی ٹوٹنے کا واقعہ تھا ۔ دفتر سیاست سے ٹولی چوکی کی ساکن ایک ایسی ماں بھی رجوع ہوئیں جنہوں نے بتایا کہ ان کی لڑکی کو دیکھنے کے لیے جو لوگ آتے ہیں ۔ وقفہ وقفہ سے اپنے سارے خاندان کی خواتین وغیرہ کو لڑکی دیکھنے کے لیے لاتے ہیں اور کئی مرتبہ لڑکی کو دیکھنے کے بعد یہ کہہ کر ماں باپ کو فکر میں مبتلا کردیتے ہیں کہ لڑکی کی ماں ، بہن یا خالہ کو لڑکی پسند نہیں ہے ۔ اس خاتون نے انتہائی برہمی کے انداز میں بتایا کہ لڑکی والوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنا اچھی بات نہیں ۔ اس طرح بار بار لڑکی کو دیکھنا ہے ، اس کے گھر والوں کی جانب سے اہتمام کردہ ضیافت سے استفادہ کرنا بھی بہت بری بات ہے ۔ ایسا کرنے والے لوگ دراصل غریب اور پریشان حال والدین کے ارمانوں کا بار بار خون کررہے ہیں اور یہ قتل دراصل معاشرہ کی تباہی و بربادی کا آغاز ہے اور اس تباہی کو روکنا سب کی ذمہ داری ہے ۔۔