’ صاحب میں مر رہا ہوں مجھے بچالو ‘

عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کے باہر تڑپتے بے سہارا شخص کی فریاد ، ٹی بی میں مبتلا انیل کو شریک کرنے سے عملہ کا انکار

حیدرآباد ۔ یکم ۔ اپریل : عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا قیام حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے بلا لحاظ مذہب رنگ و نسل اور ذات پات بیماروں کے علاج و معالجہ کے لیے عمل میں لایا تھا اور برسوں تک اس تاریخی ہاسپٹل کے دروازے غریب مریضوں کے لیے کھلے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہاسپٹل کا انتظامیہ اس تاریخی دواخانے کے بانی کے مقاصد کو فراموش کرچکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مجبور و بے بس اور بے سہارا بیماروں کو اس ہاسپٹل میں شریک کرنے سے انکار کیا جارہا ہے ۔ راقم الحروف نے آج دواخانہ عثمانیہ کا دورہ کیا دیکھا کہ پارکنگ لاٹ میں ایک انتہائی کمزور شخص وہاں پڑا ہے اور بڑی مشکل سے حرکت کررہا ہے ۔ ہاسپٹل میں موجودگی کے باوجود اس کی خطرناک حالت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جس پر انکشاف ہوا کہ اس 40 سالہ شخص کا نام انیل ہے ۔ دراصل وہ گلبرگہ سے تعلق رکھتا ہے تاہم گذشتہ 15 تا 20 برسوں سے حیدرآباد میں مقیم ہے ۔ قریب میں و اقع ایک دکان میں کام کر کے گذارا کرتا تھا لیکن ایک ماہ قبل اسے ٹی بی ہوجانے کے باعث اس دواخانہ کے قریب لاکر چھوڑ دیا گیا تب سے اب تک اسے دیکھنے والا کوئی نہیں ۔ انیل نے بتایا کہ وہ ڈاکٹروں سے رجوع ہوا لیکن ہاسپٹل کے عملہ نے اسے باہر نکال دیا اس نے ڈاکٹروں سے التجا کی کہ کم از کم کچھ دوائیں دی جائیں لیکن اس بیمار کو دواؤں سے بھی محروم رکھا گیا جس کے نتیجہ میں انیل چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہے ۔ دو چار قدم چلتے ہی اسے چکر سی آجاتی ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ انیل اس قدر کمزور ہوگیا ہے کہ وہ بات چیت بھی بڑی مشکل سے کررہا تھا ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ دواخانہ عثمانیہ کا عملہ ان کے ساتھ بِڑی بے دردی کے ساتھ پیش آیا جس پر ان کی آنکھ سے آنسو رواں ہوگئے ۔ اس غریب و لاچار شخص نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر اور عملہ آدھار کارڈ اور ساتھ میں کسی کو لانے پر زور دے رہے ہیں جب کہ شہر میں اس کے کوئی رشتہ دار نہیں اور اس حالت میں وہ گلبرگہ بھی نہیں جاسکتا ۔ بعض افراد نے بتایا کہ انیل جس کے ہاں ملازم تھا اس کا فریضہ بنتا ہے کہ اس کا علاج کروائے لیکن اس بات پر انیل بتاتا ہے کہ اس شخص نے اسے ہاسپٹل پہنچایا اور پھر واپس نہیں آیا ۔

انیل یہی چاہتا ہے کہ اسے ہاسپٹل میں بھرتی کیا جائے وہ جینا چاہتا ہے ۔ سرکاری ہاسپٹل کے پارکنگ لاٹ میں تڑپ تڑپ کر مرنا نہیں چاہتا ۔ اس کی درخواست ہے کہ اسے کسی بھی دواخانہ میں شریک کروایا جائے ۔ ہم نے انیل کے بیان کو اپنے ویڈیو کیمرہ میں قید کرلیاہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انیل جیسے مجبور و بے بس اور بے سہارا لوگوں کو بھی علاج سے محروم رکھا جائے گا تو پھر تاریخی عثمانیہ جنرل ہاسپٹل میں کس کا علاج کیا جائے گا ۔ سرکاری دواخانہ ڈاکٹروں یا ارکان عملہ کے آرام کرنے کے مقامات نہیں ہوتے بلکہ وہاں مختلف امراض میں تڑپتے بلکتے انسانوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ کاش ڈاکٹرس اور عثمانیہ ہاسپٹل کا عملہ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک انسان کی زندگی بچانے آگے آتا تو کتنا بہتر ہوتا ۔ پتہ نہیں ہمارے تاریخی شہر کے اس تاریخی ہاسپٹل میں کتنے انیل ہو ںگے جو علاج نہ ہونے کے باعث ہاسپٹل کے کسی کونے میں تڑپ تڑپ کر موت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے ۔ ریاستی گورنر مسٹر نرسمہن اگر عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی حالت زار کا خود جائزہ لیں تو شائد انیل جیسے مریضوں کو راحت ہوگی ۔ کاش عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کے عملہ کو اس بات کا اندازہ ہوتا کہ لاوارث و بے سہارا لوگوں کے پاس آدھار کارڈ نہیں ہوتے ایسے میں اس قسم کے بیماروں کیلئے ہاسپٹل کے کسی گوشے میں ایک علحدہ وارڈ ہو ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریبا 30 ایکڑ اراضی پر قائم اس ہاسپٹل میں لاوارث مریضوں کے لیے 30 بستر نہیں ڈالے جاسکتے ۔۔