یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

بے راہ روی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اسلامی تعلیمات کی نور افشانیاں اور ضیا پاشیاں بکھیرنا یقیناً محنت طلب اور صبر آزما مرحلہ ہے، جس کی راہ میں ہمیں پھولوں کی سیج سے زیادہ خاردار کانٹے، سنگین حالات اور پُرخطر ماحول کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب بھی ہم اعلیٰ کردار اور حسن عمل سے صالح معاشرہ کی تشکیل کی کوشش کرتے ہیں، شیطان اور نفس اپنی کوششیں اور حملے مزید تیز کردیتے ہیں، جس سے تضعیف ایمانی، تقلیل عملی، کم حوصلگی اور پست ہمتی کا شکار خائف افراد اکثر یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے مبرا ہوجانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سارا معاشرہ ہی اس ڈگر پر چل پڑا ہے، ہم اکیلے کیا کرسکتے ہیں؟۔ پھر وہ بھی اسی روش پر چل کر عیش و عشرت کی زندگی کو ترجیح دینے لگتے ہیں اور ابدی حیات کو اجیرن بنا لیتے ہیں۔ جب کہ قرآن حکیم کا واضح ارشاد ہے: ’’فرمائیے! تم سے باز پُرس نہیں ہوگی ان جرموں کی جو ہم نے کئے اور نہ ہم سے باز پُرس ہوگی تمہارے کرتوتوں کی‘‘۔ (سورۂ سباء۔۲۵)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جس شخص نے مسلمانوں میں کسی نیک طریقہ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اورعمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہوگی۔ اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی‘‘۔ (مسلم، نسائی، ابن ماجہ)
ہم معاشرہ کی چلن کا اعتبار کرنے کی بجائے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک پر غور و خوض کریں کہ اگر ہمارے نیک عمل سے کسی کی زندگی سنور جائے تو ہم عند اللہ ماجور و ماثوب ہوں گے، وہیں اگر ہمارے کسی نازیبا عمل سے کوئی برائی کی راہ پر چلنے کا عادی بن جائے تو اس کا عذاب بھی ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہے گا۔ اب یہ بات ہمارے صوابدید پر منحصر ہے کہ ہمیں معاشرہ کا اعتبار کرنا چاہئے یا آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ باد مخالف میں کہن کی طرح ڈٹ جانا اور قادر مطلق کی قدرت کاملہ پر پختہ اعتماد رکھنا مؤمن کی نشانی ہے، جب کہ ہوا کا رُخ دیکھ کر سمت کا تعین کرنا تو تنکوں کو بھی آتا ہے۔ چنانچہ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ لوگوں نے ان ہی ہستیوں کو اپنی آنکھوں کا سُرمہ بنایا، جو معاشرہ کی چلن کی پرواہ کئے بغیر راہ راست پر استقامت کے ساتھ گامزن رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’سب (اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں‘‘ (سورۂ انبیاء۔۳۳) سوائے جن و انس کے کائنات کی ہر چیز جو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے، اپنے مقررہ محور و مدار پر گردش کر رہی ہے، ان میں رمق برابر تبدیلی و تغیر نہیں آتا، اگر آجائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے۔
اگر ہم سائنس داں کی مانیں تو بحرالکاہل کی تہہ کا ایک حصہ کھسک جانا، جاپان میں ۳۳ فٹ بلند اُٹھنے والی قیامت خیز سونامی کی اہم وجہ ہے، جب کہ بعض ماہرین ارضیات یہ مانتے ہیں کہ سونامی کا اصل سبب ۸ء۹ شدت کا زلزلہ ہے۔ ہمارے لئے اس میں غور و فکر کا پہلو یہ ہے کہ جب کائنات کی کسی چیز میں رمق برابر تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ہولناکیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں، تو اندازہ کیجئے کہ جب اشرف المخلوقات یعنی انسان کی روش اور کردار میں تبدیلی آئے گی تو کیا پریشانیاں نہیں آئیں گی؟۔ اگر ہم ان حوادث کو مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تباہ کاریاں ہمارے شامت اعمال کا خمیازہ ہے۔ کیا بحرالکاہل آج ہی معرض وجود میں آیا؟ نہیں، تو پھر اِس دَور میں ہی ایسے تلاطم کیوں؟۔ کیا ماضی میں مادی ترقی نہ تھی؟ لیکن اُس دور میں انسانی اقدار کا پاس و لحاظ تھا، اسی لئے وہ ادوار آج کی بنسبت آسمانی آفات سے زیادہ محفوظ تھے۔
جاپان کے شمال مشرقی ساحل پر آئے سونامی، طاقتور زلزلہ اور نیو کلیئر پلانٹ کے بڑے ری ایکٹر پھٹنے اور اس سے خارج ہونے والی نیو کلیائی تابکاری سے ہونے والی ہلاکت خیزیوں، آسام اور ہندوستان کے شمالی علاقوں میں آئے حالیہ زلزلوں پر لوگ اشکبار تھے اور ہیں۔ یہ حادثات ہمارے لئے بھی اتنے ہی عبرت کا باعث ہیں، جس طرح دیگر اقوام کے لئے۔ ہم غیروں پر انگشت نمائی کی بجائے اپنے اعمال کا محاسبہ کریں۔ کیا ہمارے گھروں کی فضائیں تلاوت قرآن کی برکتوں سے معطر ہیں؟ کیا ہم اسلامی قوانین کی پابجائی کر رہے ہیں؟۔
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جب تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ راہ راست سے اس کا قدم پھسل گیا ہے تو اسے سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کرو۔ اس کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔ یعنی اگر تم اسے بُرا بھلا کہنا شروع کردوگے، اس پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے لگوگے تو وہ اپنی ضد پر پکا ہو جائے گا اور اسے اپنی عزت نفس کا سوال بناکر گمراہی میں دُور نکل جائے گا۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
مسلمان سونامی اور زلزلوں کو قدرت کی ایک چھوٹی سی نشانی تصور کرتے ہیں اور صاحب ایمان فوراً اپنے اعمال کے محاسبہ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ چوں کہ قرآن حکیم نے جسمانی قوت و طاقت کے نشہ میں مست اور اخلاقی پستی کے باعث جرائم میں ملوث قوم عاد کی تباہی و ہلاکت کا تذکرہ کیا ہے، جس کے مقابل ہماری توانائیاں عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم حسن عمل کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے ساری انسانیت کے سامنے یہ پیغام عام کریں کہ اخلاق و کردار کے بغیر عصری و مادی ترقی کی ساری رونقیں خاک سیاہ بن کر رہ جائیں گی۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ تکاثر اموال و دنیا پر فخر کرنے، مظلوم عوام کو اپنے ظلم و ستم اور جبر و استبداد کا شکار بنانے کی بجائے اعمال کو سدھارنے کی کوشش کریں، جب کہ قیامت کا منظر ان آفات سماوی سے کہیں زیادہ ہولناک ہوگا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے دست قدرت میں لے لے گا اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے داہنے ہاتھ میں۔ پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟‘‘۔ (رواہ شیخین)