مفتی عبد الفتاح عادل سبیلی
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر واقعہ، آپﷺ کی مبارک زندگی کا ہر لمحہ ہر ملک اور ہر طبقہ کے افراد اور جماعتوں کے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہے۔ قرآن مجید میں موجود آیت (لقد کان لکم… الخ) اس کی واضح دلیل ہے۔ آپﷺ کی خوبیوں اور کمالات کا تذکرہ سیرت کی مختلف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے، ان میں چند ایک خصوصیات فرنچ پروفیسر سیڈیو کی زبانی ذکر کی جاتی ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خندہ رو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے، بکثرت ذکر خدا کرنے والے، لغویات سے دور، بیہودہ پن سے نفور، بہترین رائے اور بہترین عقل والے تھے۔ انصاف کے معاملے میں قریب و بعید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برابر ہوتا تھا۔ مساکین سے محبت فرمایا کرتے تھے، غرباء میں رہ کر خوش ہوتے، کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے حقیر نہ سمجھتے اور کسی بادشاہ کو بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے۔ اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے، جاہلوں کی حرکات پر صبر فرمایا کرتے۔ کسی شخص سے خود علحدہ نہ ہوتے، جب تک کہ وہ خود نہ چلا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت فرماتے۔ سفید زمین پر (بلاکسی مسند و فرش کے) نشست فرمایا کرتے۔ دشمن اور کافر سے بھی بکشادہ پیشانی ملا کرتے تھے۔ (خلاصہ تاریخ العرب، بحوالہ رحمۃ للعالمین)
یہ وہ خصوصیات ہیں جو مختصراً بیان کی گئیں، حالانکہ آپﷺ کی سیرت پاک اور آپ کے کمالات و محاسن کے ذکر کو کسی مؤرخ اور سیرت نگار کی کیا مجال جو کماحقہٗ قلمبند کرسکے۔ لیکن جن خوبیوں اور صفات کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کے متعلق اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے اور چاہنے والے ضرور ہیں، آپ کے امتی اور نام لیوا ضرور ہیں، مگر آپﷺ کے پاکیزہ طور و طریق کو اختیار کرنے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالی نے ہم پر احسان عظیم فرماتے ہوئے اور آپﷺ کی زندگی، آپ کے روز و شب کو ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ بنا دیا، تاکہ اسے اختیار کرکے ہم اپنی زندگی کو تابناک اور روشنا بناسکیں۔ مگر یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آپﷺ کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق و عادات اور اپنی رفتار و گفتار کو اپنانا نہیں چاہتے، جب کہ اللہ تعالی نے اسی میں خیر رکھا ہے اور اسی کو کامیابی و کامرانی قرار دیا ہے۔
آج ہم مغربی طور و طریق کے دلدادہ بن گئے اور نبوی طریقے کو ہم نے فراموش کردیا ہے۔ ہم فیشن پرست بن گئے اور اپنے نبی کی سنت کو نظرانداز کردیا۔ ہم نے دنیا کو اختیار کرلیا اور دین کو قربان کردیا۔ ہم نے ظاہری اور مصنوعی طریقہ کار کو فروغ دیا اور حقیقی و غیر مصنوعی راستے سے منہ موڑ لیا۔ کیا یہی آپﷺ سے تعلق و محبت ہے؟ کیا اسی کا نام اتباع و پیروی ہے؟ کیا امتی ہونے کا تقاضہ یہی ہے؟۔ نہیں، ہرگز نہیں، یہ تو گمراہی اور ضلالت کا راستہ ہے اور ناکامی و نامرادی کی علامت ہے، منافقت اور بے دینی کی نشانی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ ’’اگر تم اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ کی محبت حاصل ہوجائے گی‘‘ گویا اللہ تعالی نے ایک تو آپﷺ کی حیات طیبہ کو نمونہ بنایا اور دوسرے آپ کی پیروی اور اطاعت کو اپنی محبت کے حصول کا ذریعہ بتایا،اس کے باوجود ہمارا حال اتنا خراب ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کر رہے ہیں۔ آپﷺ سے والہانہ محبت اور تعلق کی علامت یہ ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ کو مکمل طورپر اپنایا جائے، کیونکہ اس کے علاوہ موجودہ سماجی مسائل کا حل کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ آج بھی ہم امت مسلمہ کامیابی و کامرانی کی اعلی منزل پر فائز ہوسکتے ہیں، آج بھی ہمارے سیکڑوں ملی، سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ ہم اسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنالیں اور اسی کو باعث نجات اور سرمایۂ زندگی تصور کریں۔ علامہ اقبال نے حقیقت کی عکاسی اس طرح کی ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
چھوٹے بڑے کا معیار
دنیا میں جو چھوٹے اور بڑے کا معیار ہے، وہ یہیں رہ جائے گا۔ جو لوگ دُنیا میں بڑے سمجھے جاتے تھے، قیامت کے دن وہ دوزح کے گہرے گڑھے میں ڈھکیل دیئے جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ اس کے برعکس جو لوگ دنیا میں متواضع بن کر رہتے تھے اور اپنی بڑائی کا کوئی خیال نہ رکھتے تھے، اپنے رب سے تعلق رکھا اور احکام خداوندی پر عمل کرتے رہے، وہ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر بیٹھے ہوں گے، ان میں سے کوئی نور کے میز پر ہوگا، کسی کو عرش کے سائے میں جگہ عطا کی جائے گی اور بہت سے بے حساب جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔ (مرسلہ)