یو پی میں انتخابی مفاہمت

جب بھی آتا ہے قریب روز حساب
لوگ کرتے ہیں اُصولوں کی بھی سودے بازی
یو پی میں انتخابی مفاہمت
اترپردیش ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی و مذہبی اعتبار سے سب سے زیادہ حساس ریاست ہے ۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ دہلی کے اقتدار کا راستہ یو پی سے ہوکر جاتا ہے ۔ ملک میں برسر اقتدار نریندر مودی حکومت کے اقتدار کی بنیاد بھی یو پی میں یو پی میں ملی کامیابی ہی کہی جاسکتی ہے ۔ اس ریاست میںبی جے پی نے کافی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور اسی کی مدد سے بی جے پی مرکز میں سادہ اکثریت حاصل کرپائی تھی ۔ اب جبکہ ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کا وقت قریب آتا جار ہا ہے دوبارہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی اپنی ریاست میں کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک میں مختلف سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انہیں یا ان کے اتحاد کو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل ہو جس کے بل پر وہ آئندہ حکومت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرسکیں۔ یو پی میں دیکھا گیا ہے کہ دو علاقائی جماعتیں طاقتور موقف رکھتی ہیں۔ ان میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی شامل ہیں۔ ہر جماعت کو اپنے بل پر یو پی میں سادہ اکثریت حاصل ہوئی تھی اور ہر جماعت ایک ایک معیاد کیلئے تنہا حکومت قائم کرچکی ہے ۔ تاہم گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ساتھ سماجوادی پارٹی نے اتحاد کیا تھا جسے ناکامی ہاتھ آئی ۔ اسمبلی انتخابات کے بعد ریاست میں لوک سبھا کے ضمنی انتخاب ہوئے تھے ۔ سماجوادی پارٹی نے اس وقت حالات کو دیکھتے ہوئے کانگریس سے کوئی اتحاد نہیں کیا اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اس کی انتخابی مفاہمت ہوئی تھی اور یہ مفاہمت کامیاب ہوئی ۔ اس مفاہمت کے نتیجہ میں یو پی میں گورکھپور اور پھولپور جیسی نشستوں پر بھی سماجوادی پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ یہ دونوں بی جے پی کے گڑھ سمجھے جاتے تھے ۔ دونوں حلقوں سے ایس پی نے مقابلہ کیا تھا اور دونوں ہی جگہ اسے بی ایس پی کی تائید حاصل رہی ۔ اسی تائید کے نتیجہ میں دونوں نشستوں پر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اسی نہج پر کام کرتے ہوئے یو پی میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی آپس میں ہی اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں واضح اشارے بھی ملک رہے ہیں اور کہا جار ہا ہے کہ اس اتحاد میں کانگریس کو شامل نہیں کیا جائیگا ۔ کانگریس نے اپنے طور پر یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ کوشش کریگی کہ اس اتحاد میںاسے بھی جگہ حاصل ہوجائے ۔ جہاں تک وسیع تر سیاسی صورتحال کا سوال ہے یقینی طور پر کانگریس کی شمولیت سے بی ایس پی ۔ ایس پی اتحاد کو مزید تقویت مل سکتی ہے ۔ تاہم نشستوں کی تقسیم پر کچھ اختلافات پیدا ہوسکتے ہیںاور اگر یہاں کانگریس اتحاد میںشامل ہونا چاہتی ہے تو اسے کم نشستوںپر اکتفا کرنا پڑیگا اور بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی کو بھی کچھ وسیع القلبی کے ساتھ کام کرتے ہوئے ملک کے عظیم تر مفاد میں کچھ نشستوں کی قربانی دیتے ہوئے کانگریس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا ۔ اگر یہ تینوں جماعتیں اورکچھ علاقائی جماعتیں ان کیساتھ مل جاتی ہیں تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کو یہاں اپنی لوک سبھا نشستوں کی تعداد میں کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ویسے بھی راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو شکست ہوچکی ہے ۔ راجستھان اور گجرات وہ ریاستیں ہیں جہاں تمام لوک سبھا نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی ملی تھی ۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ بی جے پی کو تمام نشستوں کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگا اور یہاں کانگریس کو بھی خاطر خواہ نشستیں حاصل ہونے کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔
اس صورتحال میں اترپردیش کی سیاسی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ یقینی طورپر سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا یہاں زیادہ غلبہ ہے اورا ن کا حلقہ اثر بھی کافی وسیع ہے ۔ ان کے باہمی اتحاد کی افادیت بھی واضح ہوچکی ہے ۔ اس کے باوجود اگر کانگریس کو اس اتحاد میں شامل کرلیا جاتا ہے اور زمینی سطح پر صورتحال کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے اسے بھی چند نشستیں دی جاتی ہیں اور دوسری نشستوں پر اس کی تائید حاصل کی جاتی ہے تو سماجوادی پارٹی ۔ بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد ریاست میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے ۔ اس تعلق سے جو کچھ بھی فیصلہ ہوگا وہ متعلقہ جماعتیں ہی کرینگی تاہم ان جماعتوں کو اپنے مفادات اور انا کی تکمیل کی بجائے ملک کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ملک کے حق میں بہتر فیصلہ کرنا ہوگا ۔