یمن میں گروہ واری تشدد

بہت ہی سُست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سُرخ تر آہستہ آہستہ
یمن میں گروہ واری تشدد
یمن میں جمعہ کو ہونے والے خودکش دھماکوں کے بعد گروہ واری تشدد کے خطرات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ دارالحکومت صنعا کی دو مساجد پر کئے گئے خودکش حملوں میں 142سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 400 زخمی ہوئے ہیں۔ حوثی قبائیلیوں کی مساجد کو نشانہ بنانے والی تنظیم دولت اسلامیہ نے عراق و شام سے لیکر یمن تک اپنے وجود کا شدت پسندانہ احساس دلایا ہے۔ صنعا کے مرکزی مقام پر واقع مسجد بدر اور مسجد الحشوش پر خودکش حملے اس وقت کئے گئے جب وہاں نماز جمعہ کی تیاری کی جارہی تھی۔ حملہ آوروں نے پہلا دھماکہ مسجد کے اندر کیا اور جان بچاکر مسجد سے نکلنے والوں کو روکنے کیلئے باب الداخلہ پر بھی دھماکہ کیا گیا جس کی وجہ سے اموات میں شدید اضافہ ہوا۔ صنعاء میں شدت پسندی کے واقعات حالیہ برسوں میں زور پکڑ چکے ہیں۔ حال ہی میں عدن کے صدارتی محل پر بھی فضائی حملے کئے گئے تھے۔ حملے میں صدر تو محفوظ رہے لیکن یہ حملہ یمن کی سکیوریٹی صورتحال کی بگڑتی کیفیت کو عیاں کرچکا تھا۔ یمن کی ایک قانونی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا نام دے کر کئے جانے والے حملوں کا عالمی سطح پر خاص نوٹ نہیں لیا جانا بھی ایک افسوسناک امر ہے۔ سعودی حکمراں نے یمن کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے اور متاثرین کو مؤثر طبی امداد دینے کا حکم دیا ہے جبکہ یمن کے معاملوں میں اقوام متحدہ نے سطحی قدم اُٹھائے ہیں۔ حوثی قبائیل کو فوری مذاکرات کی ترغیب دینے کے بعد اقوام متحدہ نے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے صرف سخت اقدامات کرنے کی دھمکی دی تھی مگر اس پر عمل کرنا اس کے بس کی بات ثابت نہیں ہوئی۔ یمن کے صدر، وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کی جب تک نظر بندی ختم نہیں کی جاتی مذاکرات کے ذریعہ مسائل کی یکسوئی کی کوشش بے مقصد ہوگی۔ یمن کے سیاسی بحران کو ہوا دینے والی طاقتوں نے اپنا ناپاک منصوبہ ان شدت پسندوں کے حوالے کردیا ہے جو امن کی بحالی کی ہرگز کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ یمن کی سکیوریٹی کے معاملے میں امریکہ کا بھی موقف دیگر خلیجی ملکوں کی تشویش کے سامنے کھوکھلی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچیکہ بحرین، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ یمن کی تشویشناک صورتحال کو بہتر بنانے کی سمت قدم اُٹھایا جائے۔ جب تک عالمی برادری یمن کے بحران پر خاص توجہ نہیں دیتی۔ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ شیعہ آبادی والے ملکوں میں جو واقعات ہوئے اس کے لئے ایک ہی بات واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سنی غلبہ والے ملکوں میں بدامنی پھیلانے کی ایک مخصوص گروپ یا ملک در پردہ سرگرم ہیں۔ ایران پر اُنگلی اُٹھتی ہے تو اس کی تردید بھی بروقت کی جاتی ہے۔ یمن کے حوثی قبیلہ کو مالی اور فوجی امداد کون دے رہا ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا اس کے باوجود عالمی طاقتوں نے یمن کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پس پشت ڈال رکھی ہیں۔ عالم اسلام کو تشدد کی نذر کرنے کی پالیسی کے نتائج بھیانک نکل سکتے ہیں۔ اسرائیل میں برسوں سے مخالف فلسطین جذبات کو ہوا دینے والی پارٹی لیکوڈ پارٹی کی کامیابی اور وزیراعظم کی حیثیت سے بنجامن نیتن یاہو کی دوبارہ کامیابی کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال دھماکو بلکہ اس سے زیادہ خطرناک ہوتے جارہی ہے تو یمن میں ہونے والے دھماکوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم عرب یا عالم اسلام کے خلاف مورچہ بند ہونے والی طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہونے ہر طرح کے حربے استعمال کررہی ہیں۔ یہ سوال بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ خودکش حملہ آور کہاں تیار ہوتے ہیں اور کدھر سے آتے ہیں۔ انتہا پسندی کے رجحانات کو طبقاتی تفریق سے جنم دے کر بدامنی کی فضاء کو مزید ابتر بنایا جاتا ہے تو اس طرح کے استحصالی طاقتوں کا قلع قمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسلام کی صحیح تعلیم سے ناآشنا اور انتہا پسندی کا شکار لوگ ہی خودکش حملہ آوروں کو جذباتی بناکر تیار کرتے ہیں۔ یمن میں یہ قبائیلی اپنے ملک کو ابتری کا شکار بناکر مسائل پیدا کررہے ہیں۔ انھیں اپنے ملک اور عوام کی تباہی کا غم نہیں ہوتا اس لئے انھیں احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ یمن کے قومی وسائل پر ان کا حق کتنا ہے اور وہ یمن کے دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن کر خود اپنا خسارہ کررہے ہیں۔ حصول اقتدار کے لئے بدامنی پیدا کرنا یمن کے سیاسی بحران کا معیاری حل نہیں ہوسکتا۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کے علاوہ عالمی امن کے حامی ملکوں کو یمن کی صورتحال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
امتحانات میں نقل نویسی
ملک بھر میں امتحانات کا مرحلہ چل رہا ہے۔ طلباء کی تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ اور آزمائش کے درمیان نقل نویسی کی معیوب خبروں کے درمیان ریاست بہار میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل نویسی کی خبر نے سارے ملک کی تعلیمی فضاء کو مکدر کردیا ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے اپنی ریاست میں دسویں جماعت کے لئے جاری امتحانات میں کھلے طور پر نقل نویسی کی خبروں پر افسوس کا اظہار کیا۔ طلباء، سرپرستوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو امتحانی مراکز پر جمع ہوکر نقل نویسی کے لئے اپنے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرنے کا واقعہ بلاشبہ قابل افسوس ہے۔ ملک بھر میں سالانہ کئی ملین دسویں جماعت کے طلباء امتحان میں حصہ لیتے ہیں۔ اس امتحان کو کامیاب کرنا ان کے لئے لازمی ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی کیرئیر کا روشن مستقبل شروع کرسکیں۔ دسویں جماعت کا امتحان دراصل طلباء کے تعلیمی سفر کا اہم موڑ ہوتا ہے۔ اگر اس میں طالب علم سرپرست اور دوست احباب مل کر نقل نویسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو ایک طالب علم کے بہتر مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہوگی۔ بہار میں بڑے پیمانے پر نقل نویسی کے واقعہ کے بعد حکام نے کارروائی کرتے ہوئے 600 طلباء کو امتحان ہال سے نکال دیا۔ ان کی تعلیمی مستقبل کچھ سال کے لئے مفقود بنادیا گیا۔ ملک کی ہر ریاست میں یہی صورتحال رونما ہو تو ہندوستان کے تعلیمی معیارات پر سوال اُٹھیں گے۔ ریاست تلنگانہ میں بھی آئندہ چند دنوں میں دسویں کے امتحانات شروع ہورہے ہیں لہذا طلباء، سرپرستوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نقل نویسی سے پاک امتحان نویسی کو یقینی بنائیں اور طلباء کے تعلیمی مستقبل سے کھلواڑ نہ کریں۔ امتحانی مراکز پر پولیس اور دیگر نگرانکار انتظامات کو مؤثر بناتے ہوئے طلباء کے تعلیمی مستقبل کو پاک صاف طریقہ سے آگے بڑھانے میں مدد کرنا حکومت نظم و نسق کے علاوہ سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔