حالات کے ملبوں میں یہ کیا ڈھونڈتے ہیں لوگ
خود اپنی ہی لاشوں کا پتہ ڈھونڈتے ہیں لوگ
یمن میں انسانی بحران
یمن میں مصیبتوں کو ہوا دینے والے واقعات میں اضافہ سے انسانی سانحات کو روکنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ گذشتہ 3 سال سے جاری بدامنی کی کیفیت میں اب مزید شدت کا امکان ہے ۔ یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی ہلاکت کے بعد اس ملک میں یا تو امن کے قیام کی امید کی جاسکتی ہے یا پھر انسانی بحران سے نمٹنے والے اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونے کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے ۔ بظاہر علی عبداللہ صالح کی ہلاکت کو باغیوں کے پیدا کردہ بحران کے خاتمہ کی امید باندھی جارہی ہے ۔ صالح کی ہلاکت کی تصدیق ہونے پر بھی شبہات ظاہر کیے گئے ہیں لیکن ان کی ہلاکت کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس واقعہ کی تصویروں کو 2011 میں لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ساتھ ہونے والے افسوسناک واقعہ کے مماثل قرار دیا جارہا ہے ۔ صالح نے اپنی حکومت بحال کرنے کی ضد میں باغیوں کو بالادستی دے رکھی تھی ۔ لیکن اب حوثی باغی کمزور پڑ جائیں گے ۔ تو یمن میں امن کی راہیں کھلی جاسکتی ہیں ۔ یمن کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت اور سعودی زیر قیادت اتحاد کی بھی اس حکومت کو حمایت حاصل ہے جو حوثی باغیوں کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ جس کے نتیجہ میں یمن کے اندر ایک سنگین انسانی بحران پایا جاتاہے ۔ حال ہی میں وزیراعظم برطانیہ تھریسامے نے شاہ سلمان سے ملاقات کر کے یمن کے اندر جاری انسانی المیہ کی صورتحال کو ختم کرنے پر زور دیا تھا ۔ اس کے بعد ہی صالح کی ہلاکت سے ایک ایسے دور کا خاتمہ ہوا جنہوں نے یمن پر زائد از 3 دہوں تک حکومت کی تھی ۔ عرب بہار تک وہ یمن کے حکمران تھے لیکن انہیں 2012 ء میں مجبوراً حکمرانی سے ہٹنا پڑا تھا بعد ازاں انہوں نے حوثی باغیوں کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا اور انہیں یہی غلط فہمی یا خوش فہمی تھی کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد سے یمن پر دوبارہ برسر اقتدار آئیں گے اور وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں گے ۔ لیکن یمن میں بڑھتی انسانی بحران کی کیفیت کے ساتھ اس ملک کو دیگر مسائل سے دوچار کردیا ۔ یمن کی خانہ جنگی نے اتنی تباہی مچادی ہے کہ یہاں فاقہ کشی اور امراض کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں ۔ یمن کے دارالحکومت صنعا کو کھنڈر اور قبرستان بنانے والے واقعات نے مقامی افراد کی دن رات کا چین چھین لیا ہے ۔ لوگ خوف کے سایہ میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ اصل سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ عبداللہ صالح کے حامی دستے میں حوثی باغیوں کے شانہ بہ شانہ موجود صدر عبدالربو منصور ہادی کے خلاف لڑ رہے تھے تو صالح کو ہلاک کرنے کا باغیوں نے کیوں منصوبہ بنایا؟ ۔دراصل علی عبداللہ صالح نے لمحہ آخر میں شاید یہ اندازہ کرلیا ہوگا کہ اگر یہ لڑائی جاری رہی تو انہیں کمزور کرلیا جائے گا اور دوبارہ حکمراں بننے کے خواب کو پورا نہیں کرسکیں گے انہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں صدر عبدالربو منصور ہادی کی حمایت میں لڑنے والے اتحاد کی پیشکش کی تھی کہ اگر وہ یمن پر بمباری روک دیں اور اس کا محاصرہ ختم کردیں تو وہ باہمی تعلقات میں ایک نئے دور کی شروعات کرسکیں گے ۔اگرچیکہ سعودی عرب کے اتحادی گروپ اور صدر عبدالربو منصور ہادی نے صالح کی اس پیشکش کا خیر مقدم کیا تھا لیکن حوثیوں کو اس اتحاد میں اپنے مستقبل کو خطرہ نظر آیا اور اس اتحاد کا یعنی حوثی باغیوں اور صالح کے حامیوں کے اتحاد کو ختم کردیں گے تو صنعا پر ان کا کنٹرول حاصل کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا ۔ حوثی باغیوں کی شدت پسندانہ کارروائیوں اور سعودی عرب اتحاد کی جنگ نے یمن کو ایک خانہ جنگی کی طرف ڈھکیل دیا جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2015 سے اب تک یہاں 8670 افراد ہلاک اور 49960 افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ جنگ نے یمن کے تقریبا 27 لاکھ افراد کو انسانی امداد کا محتاج بنادیا ۔ اس ملک میں جنگ کی تباہی سے زیادہ اب خوراک کا سب سے بڑا بحران پایا جاتا ہے اور ہیضے کی وبا نے بھی بڑے پیمانہ پر انسانوں کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور اس وبا سے 2211 افراد کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ عرب ممالک کے غریب ملکوں میں سے ایک یمن کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ امیر عرب ممالک امن کے اقدامات کو اولین ترجیح دیں اور انسانی المیہ کو ٹالنے والے کام انجام دیں ۔۔