یاقوت پورہ میں کون ہوں گے کامیاب عوام یا سرمایہ کار

پرانا شہر کے حلقہ میں کوکا کولہ اورپیپسی کی مسابقت کا ماحول ۔ آئندہ چند یوم میں فیصلہ

حیدرآباد ۔ 21 ۔ اپریل : مشروبات کی امریکی کمپنیوں کوکا کولہ اور پیپسی کے درمیان 1919 سے جس طرح کا سخت مقابلہ جاری ہے اسی طرح حیدرآباد کے حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں بھی فرحت اللہ خاں اور ممتاز احمد خاں کے درمیان ٹکر کا مقابلہ ہورہا ہے ۔ قارئین آپ ان انتخابات میں کوکاکولہ اور پیپسی کے بارے میں سن کر چونک گئے ہوں گے لیکن حلقہ کی موجودہ سیاسی صورتحال اور امیدواروں کے موقف کو واضح طور پر سمجھانے کے لیے سافٹ ڈرنکس ( ٹھنڈے مشروبات ) کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ایک ڈسٹری بیوٹر نے ہمارے سامنے کوکا کولہ اور پیپسی کی مثال پیش کی ۔ انہوں نے انتہائی دانشورانہ انداز میں بتایا کہ حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں 20 برسوں سے ممتاز احمد خاں رکن اسمبلی منتخب ہوتے آئے ہیں اور اب ایم بی ٹی کے فرحت خاں اس طرح ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر ابھرے ہیں ۔ جس طرح 1919 میں پیپسی نے ٹھنڈے مشروبات سافٹ ڈرنکس کی صنعت میں قدم رکھتے ہوئے 1886 میں امریکہ کے اٹلانٹا میں قائم کی گئی کوکاکولہ کو پریشان کردیا اور اس کمپنی کے مالکین کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں ۔ پیپسی نے اپنی آمد کے ساتھ ہی کوکاکولہ کی اجارہ داری کو ختم کرنے کا کامیاب آغاز کیا تھا ۔ سافٹ ڈرنکس کے ڈسٹری بیوٹر نے جو پرانا شہر کے چپے چپے میں مشروبات سربراہ کرتے ہیں ایک بہت بڑے صنعت کار اور ماہر اقتصادیات کی طرح یہ بھی بتایا کہ یوروپ میں کوکاکولہ سے مقابلہ کے لیے پیپسی نے 500 ملین ڈالرس کی سرمایہ کاری کی جو اس کی مارکٹ سے متعلق حکمت عملی کا ایک حصہ تھا ۔ لیکن حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں کون کتنا سرمایہ لگائے گا یہ سب کو اچھی طرح اندازہ ہے اس حلقہ میں عوام سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے پاس یہ سرمایہ یعنی عوام ہوں گے وہی کامیاب ہوگا ۔ راقم الحروف کو مزید سوالات کرنے کا موقع دئیے بناء ان صاحب نے یہ بھی کہا کہ کوکاکولہ سے سخت مقابلہ میں پیپسی کو زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں اور اب دونوں کی فروخت بالترتیب 41 فیصد اور 31 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ ایسے ہی حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں فرحت خاں عوامی تائید میں بہت آگے دکھائی دے رہے ہیں اور ان کی عوامی مقبولیت کا گراف دن بہ دن اوپر جارہا ہے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے سافٹ ڈرنکس کے ڈسٹری بیوٹر صاحب کچھ وقفہ کے لیے رک گئے اور پھر کہا آئندہ ایک ہفتہ میں حالات کیا رخ بدلتے ہیں ۔ فرحت خاں اور ممتاز خاں کی حکمت عملی پر منحصر ہے اس کے باوجود ایم بی ٹی امیدوار انتخابی عمل کے آغاز سے اب تک اپنے حریف پر مسلسل سبقت بنائے ہوئے ہیں ۔ جس طرح مارکٹ میں ایک پائیدار نئے پراڈکٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح فرحت خاں کا عوام خیر مقدم کررہے ہیں ۔ جواب میں 20 سال سے رکن اسمبلی رہے اپنے حریف کو مات دینے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔ انہیں اندازہ ہے کہ عوام تبدیلی کے حق میں ہیں وہ بیس برسوں سے کی جارہی ایک قسم کی تقاریر سے بیزار ہوچکے ہیں ۔ آج ہم نے پیشہ تجارت سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہی بات کی ۔ دبیر پورہ کے ایک تاجر نے کہا کہ ایک حلقہ میں 20 ، 20 برس ایک ہی امیدوار کو نامزد کیا جانا اچھا رجحان نہیں ہے کیوں کہ انسان کی فطرت میں ہی تبدیلی رچی بسی ہے ۔ انہوں نے اپنے کیلکولیٹر پر 20 برسوں سے رکن اسمبلی منتخب ہورہے ممتاز احمد خاں کے بارے میں حساب کتاب لگانا شروع کردیا اور کہا کہ وہ 7300 دنوں اور 175200 گھنٹوں تک بحیثیت ایم ایل اے کام کرتے رہے جب کہ فرحت خاں کو عوامی خدمت کا موقع ہی نہیں ملا ۔ اس بارے میں ایم بی ٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جو کام 175200 گھنٹوں میں نہیں کئے گئے وہ چند دنوں اور مہینوں میں کردئیے جائیں گے ۔ منڈی میر عالم کے ایک تاجر نے بہت اچھی بات کہی ۔ انہوں نے عامر خاں کے ایک اشتہار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جس طرح عامر خاں نے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے انتخابات اور ترکاری کا تقابل کیا تھا اسی طرح لوگوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ ترکاری کی خریدی کے موقع پر بہت غور و فکر کے بعدفیصلہ کرتے ہیں اور تازہ سبزی کی خریداری کو یقینی بناتے ہیں ۔ ان صاحب نے عامر خاں کے ایک اور اشتہار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہم اپنی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے لڑکے اور اس کے رشتہ داروں کی بہت زیادہ چھان بین کرتے ہیں ۔ تب جاکر رشتہ طئے کیا جاتا ہے ۔ ایسے ہی اگر عوام اپنے امیدوار کے بارے میں اور اس کی کارکردگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ووٹ دیں تو اپنے حلقہ سے ایک خدمت گذار امیدوار کو منتخب کرواسکتے ہیں ۔ اسی گفتگو کے دوران ایک دینی مدرسہ کا نوجوان طالب علم بھی اس میں شامل ہوگیا ۔ اس نے غور و فکر کے بارے میں بتایا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بار بار تدبر و تفکر کا حکم دیا ہے ۔ آج جو بھی سائنسی و طبی انقلاب کے ثمرات دنیا حاصل کررہی ہے وہ دراصل مسلمانوں کے تدبر و تفکر کا نتیجہ ہے ۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کامیاب ہوتے ہیں یا سرمایہ کار ؟ ۔۔