ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت

مسلمان منظم و متحد قوم ہے، مسلم معاشرہ میں جس قدر اتحاد و اتفاق اور یگانگت کی تعلیم و تربیت پائی جاتی ہے، دوسری کسی کمیونیٹی میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی تعلیمات اور احکامات میں ایسی پراسرار کیفیت ہے، جو ساری دنیا کے مسلمانوں کو اصولی طورپر باہم جوڑے رکھتی ہے۔ جغرافیائی حدود حائل ہیں، تہذیب و تمدن کا تنوع ہے، افکار و نظریات کا اختلاف ہے، اس کے باوصف دنیا کے سارے مسلمان اجتماعی طورپر ایک ساتھ مل کر عبادت کرتے ہیں اور بعض ایسی عبادتیں ہیں کہ وہ انفرادی طورپر انجام دیتے ہیں، تب بھی سب ایک مقررہ وقت و مدت ہی میں ادا کرتے ہیں۔

ہر عاقل و بالغ مسلمان مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کا پابند ہے، بلاوجہ ترک جماعت کی اجازت نہیں۔ مسلمان روزہ انفرادی طورپر رہتے ہیں، لیکن اس کے لئے ایک کامل مہینہ مقرر ہے، وہ ایک ساتھ روزہ کا آغاز کرتے ہیں اور ایک ساتھ افطار کرتے ہیں۔ ہر ہفتہ سارے اہل محلہ جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور ہر سال عیدین کے موقع پر شہر کی آبادی سے باہر ایک بڑے میدان (عید گاہ) میں جمع ہوکر نماز عید ادا کرتے ہیں۔ قربانی انفرادی طورپر کرتے ہیں، لیکن اس کے لئے بھی ایام مقرر ہیں۔ سارے مسلمان ۱۰،۱۱ اور ۱۲؍ ذوالحجۃ الحرام کو اللہ تعالی کی راہ میں قربانی پیش کرتے ہیں۔ زکوۃ کی ادائیگی میں اگرچہ ظاہری اتحاد و اجتماعیت کا عنصر نظر نہیں آتا، تاہم ایک مالدار مسلمان مقررہ مدت کے بعد، مقررہ مال پر، مقررہ فیصد رقم اپنے ضرورت مند مسلمان بھائیوں کو مالک بنانے پر مامور ہے۔ عید الفطر کے موقع پر نماز عید سے قبل صدقۂ فطر کی ادائیگی کا لزوم ہے، تاکہ ضرورت مند و غریب کم از کم عید کے دن فکر معاش سے مستغنی رہیں اور خوشدلی سے عید کی خوشیاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ مناسکیں۔

عید الاضحی کے موقع پر مالدار واصحاب گنجائش مسلمان قربانی دیتے ہیں۔ اس وقت بھی ان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنی قربانی کے گوشت کا ایک تہائی حصہ غرباء و مستحقین کے لئے مختص کریں، اس طرح مسلمان نہ صرف ظاہری طورپر ایک ساتھ مل کر عبادت الہی کو انجام دیتے ہیں، بلکہ وہ اپنے سینے میں جذبۂ ہمدردی و غمخواری بھی رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں، ان کی ضروریات میں کام آتے ہیں، معاشی پریشانیوں میں تعاون پیش کرتے ہیں، یہی اسلامی فکر اور یہی اسلام کا طرۂ امتیاز ہے۔
اسلام نے مسلمانوں کے درمیان پیار و محبت اور مساوات و یگانگت کے انمول رشتہ کی ایسی آبیاری کی، جس کی وجہ امیری و غریبی، آقائیت و غلامی، حاکمیت و محکومی، ادنی و اعلی کا امتیاز، رنگ و نسل کی تمیز، کالے گورے کی تفریق، غرور و تکبر، تحقیر و تذلیل کے عناصر، اظہار برتری و احساس کمتری کے محرکات سب کافور ہو جاتے ہیں۔

ایمان ایک ایسا جوہر ہے، جو کسی دل میں گھر کر جاتا ہے تو اس دل کو پاکیزہ بنادیتا ہے۔ اس کی روشنی سے اختلافات و تنازعات کے پردے چاک ہو جاتے ہیں، اس کی کرنوں سے شخصی امتیازات کی تاریکیاں ہوجاتی ہیں۔ چار سو پیار و محبت، ہمدردی و غمخواری اور ایثار و قربانی کی فضاء چھا جاتی ہے۔ قوت برداشت اور تحمل کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی چیزیں پرسکون زندگی اور کامیاب معاشرہ کے حقیقی اسباب ہیں۔
ایمان بندۂ مؤمن کے دل میں خدا کی الوہیت و معبودیت اور اپنی بندگی و عبودیت کے تصور کو راسخ و مستحکم کرتا ہے، جس کی وجہ سے بندۂ مؤمن ہرآن و ہرلحظہ اپنے محبوب حقیقی کی تلاش و جستجو، محبت و معرفت میں سرگرداں رہتا ہے اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے فکرمند رہتا ہے۔ یہی تصورِ توحید ساری دنیا کے مسلمانوں کو جوڑے رکھتا ہے، ایک چھت کے نیچے سب کو جمع کردیتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’یقیناً یہ ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہو، پس تم میری ہی عبادت کرو‘‘ (الانبیاء۔۹۲) دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’بلاشبہ یہ ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرو‘‘۔ (سورۃ المؤمنون۔۵۲)
نظریۂ توحید کی بنیادیں مسلم معاشرہ میں کمزور ہو گئیں، جس کی بناء پر باہمی اختلافات و نزاعات کی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔ پیار و محبت اور اتحاد و یکجہتی کے جذبات سرد ہو گئے، مسلکی اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسجدیں بھی الگ ہو گئیں، مکاتب بھی الگ ہو گئے، مسلمان جیسی متحدہ و منظم قوم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ اعدائے دین سے نبرد آزما ہونے کی بجائے باہم ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ ایک گروہ، دوسرے گروہ کی مسجد میں جانے کے لئے تیار نہیں، دوسرے مسلک کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے آمادہ نہیں۔ ایک مکتب فکر کے ذمہ دار دوسرے مکتب فکر کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنا گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی دعوت میں شرکت سے گریز کیا جا رہا ہے۔ بیمار ہو جائے تو عیادت کے لئے سوچا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہو گئی کہ انتقال پر نماز جنازہ میں شرکت بھی اختلافی مسئلہ بن گیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملت اسلامیہ کی تعمیر اس انداز میں کی تھی کہ اس کا ایک ایک فرد، دوسرے کے لئے ممد و معاون اور سہارا تھا۔ وہ جسد واحد کی طرح ایک تھے، کنگھی کے دانوں کی مانند یکساں تھے، لیکن آج ہم نے امت مسلمہ کی مضبوط عمارت کو کھوکھلا کردیا، جس کی وجہ سے اس کی بنیادیں ہل گئیں۔

میدان عرفات میں دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کا عالمگیر اجتماع ہمیں باہمی اتحاد و اتفاق کا پیغام دے رہا ہے کہ ان کا ملک الگ ہے، ان کی زبان علحدہ ہے، ان کے رنگ مختلف ہیں، ان کی تہذیبیں منفرد ہیں، ان کا رہن سہن اور طرز معاشرت جداگانہ ہیں، ان کی فکر و سوچ کے زاویے مختلف ہیں، اس کے باوصف وہ سارے کے سارے ایک ہی لباس میں، ایک ہی میدان میں، ایک ہی چھت کے نیچے ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔ اہل اسلام کا یہ عالمگیر اور آفاقی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ اسی نظریۂ توحید کا نتیجہ ہیں، جس کا اعلان حضرت آدم علیہ السلام نے اس خاکدان گیتی پر کیا تھا۔ ساڑھے چار ہزار سال قبل جس کی تجدید حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی، جس کا احیاء ڈیڑھ ہزار سال قبل ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاقیامت یہی ملت اسلامیہ اسی نظریۂ توحید و وحدت کی امین و محافظ ہے۔